عبدالباری فرنگی محلی
مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی ولادت لکھنؤ کے فرنگی محل میں 1878ء میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے زمانے کے جید علما اور مدرسین میں سے ایک تھے۔
عبدالباری فرنگی محلی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1878 |
تاریخ وفات | سنہ 1926 (47–48 سال) |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
![]() | |
خاندان
مولانا کا خاندان لکھنؤ ہی میں 1692ء سے بس گیا تھا۔ یہ گھرانہ علم و عرفان کا گہوارہ تھا۔ کچھ ارکان خاندان اترپردیش، حیدرآباد، دکن اور دیگر مقامات پر پھیل گئے تھے اور اسی وجہ سے خاندان کے مریدوں کا حلقہ کافی وسیع ہو گیا تھا۔ مہاتما گاندھی بھی آپ کا احترام کرتے تھے اور دونوں کے بیچ کئی خطوط کا تبادلہ عمل میں آیا تھا۔[1]
کا رہائے نمایاں
مولوی عبد الباری نے 1920ء میں پہلی بارمہاتما گاندھی کو ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترکہ قائد قرار دیاتھا۔ مولوی صاحب ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد اور تحریک آزادی سے مسلمانوں کو جوڑنے کے قائل تھے۔ گاندھی جی کے علاوہ تحریک آزادی کے دیگر قائدین جیسے کہ سروجنی نائیڈو اور پنڈت پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی فرنگی محل کا دورہ کیا تھا اور یہاں کے علما سے مشورہ کیا تھا۔ فرنگی محل کے علما خلافت تحریک کے کٹر حامی تھے۔ انہوں نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتوٰی جاری کیا تھا جس کی وجہ سے کئی علما کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔[2]
شاگرد
مولانا کے شاگردوں نے کئی نمایاں کام انجام دیے تھے۔ ان ہی میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر تھے۔[3]
حوالہ جات
- GANDHI'S URDU LETTERS - The Maulana and the Mahatma - eBook by Mahmood Jamal - published by IDEAINDIA.COM - Gandhi's Urdu letters to Maulana Abdul Bari - eBook Gandhi letters ...
- http://mobiletoi.timesofindia.com/mobile.aspx?article=yes&pageid=7§id=edid=&edlabel=TOIL&mydateHid=15-08-2012&pubname=Times+of+India+-+Lucknow&edname=&articleid=Ar00700&publabel=TOI
- Roznama Dunya: اسپیشل فیچرز :- علما فرنگی محل