ریاست بھوپال

ریاست بھوپال (Bhopal State) اٹھارویں صدی میں ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔ جبکہ 1818ء سے 1947ء تک برطانوی ہندوستان میں ایک نوابی ریاست تھی اور 1947ء سے 1949ء تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی۔ اس کا پہلا دار الحکومت اسلام نگر تھا جو بعد میں بھوپال منتقل کر دیا گیا۔

بھوپال
Bhopal
ہندوستان کی نوابی ریاست (1818–1949)

1723[1]–1949
پرچم قومی نشان
شعار
نصر من اللہ[2]
ریاست بھوپال (1949–56)
دار الحکومت بھوپال
اسلام نگر (ایک مختصر مدت کے لیے)
زبانیں فارسی (سرکاری), ہندوستانی
مذہب اسلام اور ہندو مت
حکومت بادشاہت
نواب بھوپال
 - 1723–1728 دوست محمد خان (اول)
 - 1926–1949 حمید اللہ خان (آخر)
تاریخ
 - قیام 1723[3]
 - اختتام 1 جون 1949
Warning: Value specified for "continent" does not comply

ریاست دوست محمد خان نے قائم کی جو مغل فوج میں ایک افغان سپاہی تھے۔ جو شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد ایک باغی ہو گئے اور کئی علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر لی۔ ریاست بھوپال تقسیم ہند کے وقت دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، جبکہ پہلی ریاست حیدرآباد تھی۔ 1949ء میں ریاست کو ڈومنین بھارت میں ضم کر دیا گیا۔جو پرچم نواب اپنی ریاست میں استعمال کرتا تھا آج ان کی قوم نورزئی اسے اپنی قومی پرچم کھتےهے

فہرست بھوپال کے حکمران

  • نواب دوست محمد خان (1723-1728)
  • نواب یار محمد خان (1728-1742)
  • نواب فیض محمد خان (1742-1777)
  • نواب حیات محمد خان (1777-1807)
  • نواب غوث محمد خان (1807-1826)
  • نواب وزیر محمد خان (غوث محمد خان کی مخالفت میں) - (1807-1816)
  • نواب نذر محمد خان (وزیر محمد خان کے بیٹے) - (1816-1819)
  • نواب سلطان قدسیہ بیگم (غوث محمد کی بیٹی اور نذر محمد خان کی بیوی) - (1819-1837)
  • نواب جہانگیر محمد خان (سکندر جہاں بیگم کے شوہر) - (1837-1844)
  • نواب سکندر جہاں بیگم (1860-1868)
  • نواب سلطان شاہجہاں بیگم (1844-1860 اور 1868-1901)
  • کاخورو جہان، بیگم بھوپال (1901-1926)
  • نواب حمید اللہ خان (1926-1949)

ہندوستان کی ازادی کے بعد

بھارت کے 15 اگست 1947ء کو آزادی حاصل کرنے کے بعد، بھوپال الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے والی آخری ریاستوں میں سے ایک تھی۔ آخری نواب حمید اللہ خان نے مارچ 1948 میں ریاست بھوپال کو ایک علاحدہ اکائی کے طور پر برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ نواب کے خلاف احتجای تحریک دسمبر 1948ء میں ہوئی اور شنکر دیال شرما سمیت اہم رہنماؤں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ بعد ازاں سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا اور نواب بھوپال نے 30 اپریل 1949ء کو انضمام کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے۔[4]

نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی اور ممکنہ وارث عابدہ سلطان نے تخت پر ان کا حق چھوڑ دیا اور 1950ء میں پاکستان ہجرت کر گئیں۔ انہوں نے پاکستان کے محکمہ خارجہ میں بھی خدمات انجام دیں۔

لہذا، بھارت کی حکومت نے انہیں جانشینی سے خارج کر دیا گیا اور اس کی چھوٹی بہن بیگم ساجدہ سلطان کو خطاب عطا کر دیا۔ 1995ء میں بیگم ساجدہ کے انتقال پر، خطاب ان کی سب سے بڑی بیٹی نوابزادی صالحہ سلطان بیگم کوعطا کر دیا گیا۔[5]

تصاویر

حوالہ جات

  1. Merriam Webster's Geographical Dictionary, Third Edition۔ Merriam-Webster۔ صفحہ 141۔ آئی ایس بی این 978-0-87779-546-9۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013۔
  2. Roper Lethbridge۔ The golden book of India (اشاعت illustrated۔)۔ Aakar۔ صفحہ 79۔ آئی ایس بی این 978-81-87879-54-1۔
  3. Merriam Webster's Geographical Dictionary, Third Edition۔ Merriam-Webster۔ صفحہ 141۔ آئی ایس بی این 978-0-87779-546-9۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2013۔
  4. S. R. Bakshi and O. P. Ralhan۔ Madhya Pradesh Through the Ages۔ Sarup & Sons۔ صفحہ 360۔ آئی ایس بی این 978-81-7625-806-7۔
  5. Henry Soszynski (8 مارچ 2012)۔ "Bhopal (Princely State)"۔ World of Royalty۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-12-05۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.