الجزائر شہر

الجزائر شہر (انگریزی: Algiers، فرانسیسی: Alger) شمالی افریقہ کے ملک الجزائر کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 15 لاکھ 19 ہزاار 570 ہے جبکہ شہری حدود کی کل آبادی 21 لاکھ 35 ہزار 630 ہے۔ یہ بحیرہ روم کی ایک خلیج کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ شہر کو یہ نام ساحل کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے ملا ہے۔

 

الجزائر شہر
(عربی میں: الجزائر) 
 

الجزائر شہر
نشان

تاریخ تاسیس 944 
  نقشہ

انتظامی تقسیم
ملک الجزائر (1962–)[1]
فرانسیسی الجزائر (1830–1962)  [2][3]
دارالحکومت برائے
الجزائر (1962–) 
تقسیم اعلیٰ صوبہ الجزائر  
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 36.776388888889°N 3.0586111111111°E / 36.776388888889; 3.0586111111111  
رقبہ 363000000 مربع میٹر  
بلندی 0 میٹر  
آبادی
کل آبادی 3415811 (2011) 
مزید معلومات
جڑواں شہر
اوقات متناسق عالمی وقت+01:00  
سرکاری زبان عربی  
رمزِ ڈاک
16000–16132 
فون کوڈ (0)213 
جیو رمز {{#اگرخطا:2507480  |}}
[[file:|16x16px|link=|alt=]] 
نحوی غلطی
[مکمل اسکرین پر]

جدید شہر ساحل سمندر پر کھلے میدانوں پر قائم ہے جبکہ قدیم شہر سطح سمندر سے 400 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

تاریخ

الجزائر کو فونیقی باشندوں نے بسایا تھا جو اسے اکوسیم (Ikosim) کہتے تھے۔ بعد ازاں رومیوں کے قبضے کے بعد یہ اکوسیم (Icosium) کہلایا۔

البتہ موجودہ شہر زیری-سنہاجا خاندان کے بلکین ابن زیری نے 944ء میں قائم کیا جسے 1148ء صقلیہ کے راجر دوم نے فتح کیا۔ اس طرح الجزائر ہمیشہ کے لیے زیری خاندان کے تسلط سے نکل گیا۔ بعد ازاں شمال مغربی افریقہ کی عظیم قوت موحدین نے 1159ء میں فتح کیا اور 13 ویں صدی میں یہ سلطان تلمسان عبد الواحد کے زیر نگیں آ گیا۔

سقوط غرناطہ کے بعد ہسپانوی مسیحیوں کے حوصلے اس قدر بلند ہو گئے کہ انہوں نے بحیرہ روم پار کر کے مسلمانوں کے علاقوں پر دراندازی شروع کر دی۔ 16 ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے مراکش و الجزائر کے ساحلوں شہروں پر قبضہ کرنا بھی شروع کر دیا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے 1516ء میں امیر الجزائر نے عثمانی امیر البحر برادران عروج اور خیر الدین سے مدد طلب کی جنہوں نے مسیحیوں کو الجزائر سے نکال باہر کیا اور اپنی حکومت قائم کی جو بعد ازاں سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گئی۔

سلطنت عثمانیہ سے دور دراز فاصلے پر ہونے کی وجہ سے الجزائر کافی حد تک خود مختار علاقہ تھا یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بحری قزاقوں نے مغربی بحیرہ روم میں مسیحی جہازوں کا ناک میں دم کیے رکھا جس کے خاتمے کے لیے انہوں نے بار ہا کوششیں کیں۔ شہر پر ہسپانیوں کے علاوہ برطانویوں اور ولندیزیوں حتیٰ کہ امریکیوں نے بھی حملے کیے۔

بعد ازاں الجزائر پر فرانس کے قبضے کے بعد یہاں ایک تاریخی جنگ آزادی لڑی گئی جس میں 10 لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بالآخر 1962ء میں فرانس نے الجزائر کو آزادی دے دی تو یہ شہر ملک کا دار الحکومت بنا۔ آزادی کے بعد یہاں مقیم فرانسیسیوں کی بڑی تعداد اپنے وطن کو واپس چلی گئی لیکن اس کے باوجود شہر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی موجودہ آبادی الجزائر کی کل آبادی کا 10 فیصد ہے۔

الجزائر نے 1978ء اور 2007ء میں کل افریقہ کھیلوں کی میزبانی بھی کی ہے۔

مقامی طرز تعمیر

الجزائر شہر میں دلچسپی کے کئی مقامات میں جن میں قدیم قصبہ، شہداء چوک، حکومتی دفاتر، مساجد جامع کبیر، جامع جدید اور جامع کتشاوۃ کے علاوہ نوترے دیم دا افریق کا رومی کیتھولک گرجا، باردو عجائب گھر، 1800ء میں بنایا گیا ایک ترک محل اور نیا قومی کتب خانہ قابل دید ہیں۔

جامع الکبیر الجزائر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شہر کی قدیم ترین مسجد ہے۔ مسجد کے منبر پر درج ہے کہ یہ مسجد 1018ء میں یوسف ابن تاشفین نے تعمیر کروائی۔ مسجد کا مینار 1324ء میں سلطان تلمسان نے تعمیر کرایا۔ مسجد مستطیل شکل میں بنی ہوئی اور اندلسی انداز کی محرابوں و ستونوں سے مزین ہے۔ جامع الجدید 17 ویں صدی کی تعمیر کردہ مسجد ہے جس کا مینار 90 فٹ بلند ہے۔ اندر سے مسجد جامع الکبیر کی طرح ہی بنی ہوئی ہے۔

جامع کتشاوۃ 1962ء میں آزادی سے قبل ایک گرجا تھی جو 1845ء میں ایک مسجد کی جگہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اصل مسجد 1612ء کی تعمیر کردہ تھی۔ یہ مسجد اندلسی اور بزنطینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔

جڑواں شہر

سانچہ:عرب ممالک کے دار الحکومت سانچہ:فہرست افریقی دار الحکومت

  1. archINFORM location ID: https://www.archinform.net/ort/30.htm — اخذ شدہ بتاریخ: 6 اگست 2018
  2.  "صفحہ الجزائر شہر في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2019۔
  3.   "صفحہ الجزائر شہر في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2019۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.