ہٹلر
ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لیے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی جنگ عظيم ميں جرمنی کی طرف سے ايك عام سپاہی کی حيثيت سے لڑا اور فوج ميں اس لیے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی کی وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔
ہٹلر | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(جرمن میں: Adolf Hitler) | |||||||
![]() تفصیل= ایڈولف ہٹلر 1938 میں | |||||||
جرمنی کے فہرر | |||||||
مدت منصب 2 اگست 1934 – 30 اپریل 1945 | |||||||
| |||||||
نائب |
| ||||||
(1933–1945)جرمن چانسلر | |||||||
مدت منصب 30 جنوری 1933 – 30 اپریل 1945 | |||||||
صدر | پال وون ہنڈنبرگ (تک 1934) | ||||||
نائب |
| ||||||
| |||||||
پرشیا کے ریچسٹاٹہالٹر | |||||||
مدت منصب 30 جنورد 1933 – 30 اپریل 1945 | |||||||
وزیر اعظم |
| ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائشی نام | (جرمن میں: Adolf Hitler) | ||||||
پیدائش | 20 اپریل 1889 [1][2][3][4][5][6][7] براناؤ ام این [8][9] | ||||||
وفات | 30 اپریل 1945 (56 سال)[1][10][2][3][4][5][11] | ||||||
وجۂ وفات | خودکشی بذریعہ آتشیں اسلحہ | ||||||
طرز وفات | خود کشی | ||||||
شہریت | ![]() ![]() ![]() | ||||||
بالوں کا رنگ | خاکی | ||||||
قد | 174 سنٹی میٹر [13] | ||||||
وزن | 72 کلو گرام | ||||||
جماعت | نازی جماعت | ||||||
عارضہ | پارکنسن کی بیماری [14] | ||||||
زوجہ | ایوا براؤن (29 اپریل 1945–30 اپریل 1945)[15] | ||||||
ساتھی | ایوا براؤن | ||||||
والد | الوئس ہٹلر [15] | ||||||
والدہ | کلارا ہٹلر [15] | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | فوجی ، مصور ، سیاسی مصنف ، انقلابی ، ریاست کار ، سیاست دان | ||||||
مادری زبان | جرمن | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | آسٹریائی جرمن ، جرمن [16] | ||||||
کارہائے نمایاں | مائن کیمف | ||||||
تحریک | نازیت ، ضد سامیت ، سبزی خوری | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | ![]() | ||||||
شاخ | جرمن آرمی، ریچشیر | ||||||
یونٹ | سولہویں | ||||||
لڑائیاں اور جنگیں | پہلی جنگ عظیم | ||||||
اعزازات | |||||||
ٹائم سال کی شخصیت (1938) ![]() ![]() | |||||||
دستخط | |||||||
![]() ہٹلر | |||||||
IMDB پر صفحہ | |||||||
1933, کے انتخابات میں نازی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی مگر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے پریزیڈنٹ نے ہٹلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور ہٹلر ملك کے سب سے اعلی عہدے چانسلر تک پہنچ گيا۔ چانسلر بننے كے بعد ہٹلر نے جو سب سے پہلا كام كيا، وہ نازی پارٹی كا فروغ تھا۔ اس مقصد كے ليے اس نے اپنے مخالفين كو دبانے کا ہر حربہ آزمايا۔


لاکھوں مرد ، خواتین اور بچے کے قتل کا ذمہ دار ، ہٹلر ایک قوم پرست اور نسل پرست نظریاتی تھا اور اس میں امتیازی سلوک اور خاتمے کی پالیسی تھی جس نے مختلف نسلی ، سیاسی اور معاشرتی گروہوں کو متاثر کیا۔
1939ء میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی۔
دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں 30 اپریل 1945ء کو ہٹلر نے برلن میں اپنی زیرزمین پناہ گاہ میں اپنی نئی نویلی دلہن ایوان براؤن کے ساتھ خودکشی کرلی۔

اس کے دور حکومت میں نازی جرمنی یورپ کے بیشتر حصے پر قابض رہا جبکہ اس پر 11 ملین یعنی ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جن میں مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودی بھی شامل تھے۔ یہودی ہٹلر کے ہاتھوں اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کے نام سے یادکرتے ہیں۔
ہالوکاسٹ دراصل یونانی لفظ ὁλόκαυστον سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں “مکمل جلادینا“۔
اس طرح لاکھوں یہودی مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں، پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے، رومینیوں،غلاموں، معذوروں، ہم جنس پرستوں، سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔[17][18]
[[


خصوصی توجیہی کیمپس میں قیدیوں سے اُس وقت تک غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا جب تک وہ تھکن یا بیماری کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں نہ چلے جائیں۔ یہودیوں اور روم انیوں کو سینکڑروں میل دور بنائے گئے، مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح کی ریل گاڑیوں میں ٹھونس کر گھیتو منتقل کر دیا گیا، جہاں زندہ پہنچ جانے کی صورت میں اُنہیں گیس چیمبر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ جرمنی کے تمام افسرِ شاہی اس عظیم نسل کشی میں پیش پیش تھے، جس نے اس ملک کو “نسل کشی کے اڈے“ میں تبدیل کر دیا۔ .[19] ان کا تحریک نازیت میں اہم قردار تھا۔
ابتدائی سال
نسب
ہٹلر کے والد الوئس ہٹلر (1837 - 1903)، ماریہ اینا شکلگربر کے بیٹے تھے۔ بیپٹسمل رجسٹر میں والد کا نام درج نا ہونے پر ان کے والد کی جگہ والدہ کا نام شکلگربر ہی لگا دیا گیا تھا۔ 1842 میں ان کی والدہ کی شادی جوہان جارج ہیڈلر نامی شخص سے ہوئی۔ 1847 میں ان کی والدہ اور 1856 میں ہیڑلر کے انتقال کے بعد، ہیڈلر کے بھائی جوہان نیپومک ہیڈلر نے ان کی پرورش کی۔ 1876 میں بیپٹسمل رجسٹر میں قانونی طور پر الوئس ہٹلر کے والد کا نام جوہان جارج ہیڈلر رجسٹر کیا گیا (ریکارڈ میں جارج ہٹلر موجود ہے)۔ وہاں سے الوئس نے اپنے خاندانی نام کی جگہ ہٹلر لگانا شروع کیا۔
نازی اہلکار ہانس فرانک کے مطابق الوئس کی والدہ ایک یہودی خاندان کے ہاں گراز میں گھرداری کا کام کرتی تھی اور اس خاندان کے 19 سالہ لیوپولڈ فرانکنبرگر الوئس کے والد ہیں۔ مگر کیونکہ اس دور میں گراز کے ریکارڈ میں کیس لیوپولڈ نامی شخص کا نام نہ ملنے پر تاریخدان اس دعویٰ کو رد کرتے ہیں۔
بچپن اور تعلیم

اڈولف ہٹلر کی پیدائش 20 اپریل 1889 میں آسٹریا-مجارستان کے شہر برائناؤ ایم ان کے ایک ہوٹل گاستھوف زم پومر نامی ہوٹل میں ہوئی جو سالزبرگر وورسٹاڈ 15 پر واقع ہے۔ یہ شہر باواریا، جرمنی کا پڑوسی شہر ہے۔ اس کی والدہ کلارا ہٹلر الوئس ہٹلر کی تیسری بیوی تھی۔ ہٹلر کا چھ بہن بھائیوں میں چوتھا نمبر تھا۔ ان بڑے بہن بھائیوں میں گستاو، ایدا اور اوٹو کا کم عمری ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ ہٹلر کی چھوٹی بہن پاؤلا ہٹلر ہھی جوانی کی عمر کو پہنچ سکی۔ جب ہٹلر تین سال کے ہوئے تو ان کا کنبہ پساؤ، جرمنی منتقل ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہان کا تلفظ آسٹرین جرمن کی جگہ لوئر باوارین تھا۔ 1894 میں ان کا کنبہ لیوڈنگ (لنز کے قریب) منتقل ہو گیا اور جون 1895 میں ان کی والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ہیفلڈ (لیمبیک کے نزدیک) ایک زمین کے قطعے پر مکھیوں کی افزائش کرنے لگے۔ ہٹلر نے فشلہیم کے قریب ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد کی فرانسیسی جرمن جنگ 1870-71 پر مبنی تصویری کتاب نے ان کی توجہ جنگ و جدل کی جانب لگانے میں بڑا کردار ادا کیا۔
ہیفلڈ میں اسکول کے سخت قوانین کی پاسداری نا کرنے پر ہٹلر کا اپنے والد سے شدید تناضع رہنے لگا۔ ان کے والد کا ہیفلڈ میں کھیتی کا کام نا چلا اور 1897 میں یہ کنبہ لیمبیک کوچ کر گیا۔ آٹھ سالہ ہٹلر نے موسیقی کی تعلیم میں دلچسپی لی اور چرچ میں کوائر گائے، یہاں تک کے انہوں نے پادری بننے کا بھی سوچا۔ 189 میں یہ کنبہ مستقل طور پر لیوڈنگ واپس آگیا۔ 1900 میں ان کے چھوٹے بھائی ایڈمنڈ کی خسرہ سے موت نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ اب ہٹلر ایک خوداعتماد اور غیور طالبعلم سے ایک خاموش اور اداس شخصیت بن گئے تھے جن کی بات بات پر اپنے والد اور اساتذہ سے نوک جھونک ہوتی رہتی تھی۔
اس دوران الوئس نے کسٹم بیورو میں ایک کامیاب ذریعہ معاش تلاش کر لیا تھا اور اپنے بیٹے کو اپنے نقش قدم پر چلانا چاھتا تھا۔ ہٹلر اس دوران کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں جس میں ان کے والد انہیں کسٹم آفس گھمانے لے گئے مگر وہاں ہونے والے اختلاف نے باپ بیٹے کے درمیان ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خلاء پیدا کر دیا۔ اپنے بیٹے کے مصور بننے کی خواہش کے خلاف ستمبر 1900 میں ہٹلر کو ریئلشول، لنز بھیج دیا گیا۔ اپنی کتاب مین کیمپ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلہ سے بغاوت کرتے ہوئے انہوں نے جان بوجھ کر تعلیم پریہ سوچ کر توجہ نہیں دی کہ شاید ان کی بری کارکردگی دیکھ کر ان کو اپنا خواب پورا کرنے کا موقع مل جائے۔

دیگر آسٹرین جرمن نزاد افراد کی طرح کم سنی میں ہی ان میں جرمن قوم پرستی کے جذبات موجود تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملتے وقت جرمن خیرمقدم “ہیل“ اور آسٹرین امپیریل ترانہ کی جگہ “دشلیندلید“ گاتے تھے۔
3 جنوری 1903 میں والد کے انتقال کے بعد ہٹلر کی تعلیمی کارکردگی میں مزید خرابی کے بعد ان کی والدہ نے انہیں اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد ستمبر 1904 میں ہٹلر نے ریئلشول، اسٹیر میں داخلہ لے لیا۔ 1905 میں تعلیمی سفر مکمل کرنے کے بعد کسی مزید تعلیمی یا معاشی سفر کا منصوبہ بنائے بغیر ہٹلر نے اسکول چھوڑ دیا۔
ویانا اور میونخ میں جوانی کے ابتدائی دن

1905 کے بعد ہٹلر نے ویانا میں بوہیمین طرز زندگی اختیار کی، جس میں ان کی مالی معاونت ان کی والدہ نے یتیموں کے امدادی فنڈ سے کی۔ وہ کبھی کبھار مزدوری کر لیتے تھے مگر بالاخر انہوں نے مصوری کو اپنا ذریعہ معاش چنا اور آبرنگ بیچنا شروع کیا۔ اکیڈمی برائے فائن آرٹس ویانا نے 1907 اور 1908 میں دو بار رد کیا اور ڈائریکٹر نے انہیں ماہر تعمیرات بننے کا مشورہ دیا، جس میں ان کی تعلیمی قابلیت ناکافی تھی۔ 21 دسمبر 1907 میں ان کی والدہ 47 سال کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔ اکیڈمیں سے دوسری بار رد ہونے کے بعد ہٹلر کی تمام جمع پونجی ختم ہو گئی اور1909 میں وہ بے آسرا لوگوں کی رہائش میں رہنے لگا اور اس کے بعد 1910 میں مکان برائے غریب محنتکش افراد میلدیمانسٹرابے میں بس گیا۔ اس دور میں ویانا مزہبی تعصب اور نسل پرستی کا مرکز تھا۔ عوام میں مشرقی سے ہجرت کرنے والی آبادیوں کے ہاتھوں قبضہ ہونے کا خوف عام تھا اور عوام مقبول میئر کارل لیوگر یہود دشمن جذبات کو ذاتی سیاست چمکانے کے لیے ہوا دیتے رہے۔ ہٹلر کے ریائشی ضلع ماریاہلف میں بھی جارج شونیرر کے پین جرمنک یہود شمن جذبات عام تھے۔ اس دور کے اخبارات بھی اسی قسم کا مواد شائع کرتے تھے جن میں ایک ڈیوشس وولکسبلاٹ اکثر ہٹلر کی نظر سے گزرتا تھا اور اس میں مشرقی یہودی آبادیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کے روندے جانے کے اندیشے کا کھلے عام اظہار کیا جاتا تھا۔ ان سب کے باعث نے مارٹن لوتھر کے نظریہ کی ستائش کرنی شروع کردی۔
ہٹلر کے ذہن میں یہود دشمن سوچ کی ابتدا کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ اپنی کتاب مائن کیمف میں اس شوچ کو ویانا میں اپنانے کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ ان کے قریبی دوست آگسٹ کوبیزیک کے بقول ہٹلر لنز چھوڑنے سے قبل ہی اس قسم کے جذبات کے حامل تھے۔ اس کے برعکس کئی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کے ہٹلر کے ویانا کے ہاسٹل اور دیگر جگہوں پر کئی یہودی دوست تھے۔ تاریخدان رچرڈ ایونس لکھتے ہیں کے ”تاریخدان اب عام طور پر متفق ہیں کے ان کا انگشت نما، قاتلانہ یہود دشمن رویہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا نتیجہ تھی“۔ اپنے والد کی جائداد کا آخری حصہ انہیں 1913 میں ملا اور وہ میونخ چلے گئے۔ تاریخدانوں کے مطابق یہ قدم انہوں نے آسٹرین فوج میں بھرتی نہ ہونے کے لیے اٹھایا تھا۔
hitler=== پہلی جنگ عظیم ===
سیاسی شمولیت
تیسری ریچ
معیشت اور ثقافت
ہٹلر اس بات سے واقف تھا کہ اسٹاک مارکیٹ محنت کو سرمائیہ کاری سے جدا کرتی ہے۔ پبلک لمیٹڈ کمپنی سرمائیہ داروں کو گم نامیت عطا کرتی ہے اور اسے محنت سے الگ کرنا پڑے گا۔ شیئر ہولڈر کو اپنی کمپنی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
- Feder further points out that it is the stock-market that lies at the basis of the alienation of capital from work:
- Anonymisation - the depersonalisation of our economy through the stock-marketable form of the public limited company - has to a certain degree separated capital from work, the share-holder knows in the rarest instances something of his factory, he has only the one- sided interest in the profitability of his money when he has invested it in the form of shares (p.55) [21]
دوسری جنگ عظیم

جنرل ایروِن رومل، "صحرا کی لومڑی" پوری جرمن آرمی میں اپنی بہترین تکنیکی مہارت کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے کئی سالوں تک شمالی افریقہ میں کئی مہمات کی قیادت کی ۔
لیکن آخر جرمن فوج لیبیا کے نچلے حصے میں کیا حاصل کرنا چاہتی تھی؟
جواب سادہ ہے: جنرل رومل سوئیز کینال پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور ساتھ ہی وہ مشرق وسطیٰ کے صحراوں میں تیل کے اُن قیمتی ذخیروں تک رسائی چاہتا تھا جہاں سے ابھی تک تیل نکالا نہیں گیا تھا۔
شمالی افریقہ سے بحر اوقیانوس کے برفانی پانیوں تک، جنوبی پیسیفک کے جنگلوں سے رومانیہ کے آسمانوں تک، دوسری عالمی جنگ برپا ہونے کی وجہ صرف ایک قدرتی وسیلہ تھی - دوسری جنگ عظیم پٹرولیم کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی گئی تھی۔
تیل کے بغیر جدید میکانی جنگ ناممکن تھی ۔ تیل نے ہر اہم جنگی طاقت کو جنگی مہمات کے لیے ایندھن فراہم کیا اور تیل کی ترسیل اور پٹرولیم کے وسائل کے کنٹرول کا حصول جنگ عظیم دوم کے دوران ہونے والی ساری بڑی لڑایئوں کی اہم ترین وجہ رہا ۔ اسٹالین گراڈ کی لڑائی اور پرل ہاربر پر حملہ بھی اسی تیل کے حصول کی خاطر تھا۔
1930ء کی دہائی میں گریٹ ڈپریشن کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں نے جرمن فیوڈر ایڈولف ہٹلر کی مقبولیت میں بڑا اضافہ کر دیا - گریٹ ڈپریشن نے پوری دنیا پر سنگین معاشی اثرات مرتب کیے لیکن جرمنی اس کا بد ترین شکار بنا۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے افراط زر اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے باوجود، ہٹلر نے فتح کے ذریعے قومی عظمت کی واپسی کے خواب دکھانے شروع کیے ۔ ہٹلر نے تقریریں کیں کہ جرمنی یورپ پر بالا دستی حاصل کرے گا اور وہ تمام وسائل حاصل کر لے گا جو جرمن قوم کو خود انحصار اور خود مختار بنا کر یورپ پر حکمرانی کے قابل بنا دیں گی ۔
زمین پر سب سے طاقتور صنعتی ملک میں سے ایک ہونے کے باوجود، جرمنی میں کوئی تیل کا قدرتی ذخیرہ نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ، برطانیہ اور فرانس کی طرح جرمنی کی کوئی کالونی نہیں تھی جہاں سے اسے بیرون ملک مقیم تیل حاصل ہو سکے۔
دراصل، 1930ء کی دہائی میں تیل پر صرف چند ممالک کا غلبہ تھا۔ عالمی تیل کی پیداوار کا نصف متحدہ امریکا میں پیدا ہوتا تھا۔ باقی تیل سوویت یونین، وینزویلا، ایران، انڈونیشیا اور رومانیہ سے حاصل ہوتا تھا۔ چونکہ جرمنی کی اپنی تیل کی پیداوار نہایت کم تھی اس لیے اس کی صنعتی معیشت کو ایندھن اور اس کی بڑھتی ہوئی جنگ کی مشین کو مضبوط کرنے کے لیے جرمنی کو تیل کے وافر ذخائر کی اشد ضرورت تھی۔
ہٹلر کے پاس دو راستے تھے۔ جرمنی میں کوئلہ وافر مقدار میں موجود تھا جس سے مصنوعی تیل بنایا جا سکتا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک کو فتح کر لیا جائے جیسا کہ امریکا نے عراق اور لیبیا کو فتح کر کے کیا۔ ہٹلر ایک عظیم جرمن سلطنت بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے پٹرولیم پر کنٹرول انتہائی ضروری تھا۔ جنگ عظیم دوم کی بیشتر جنگیں اسی کنٹرول کو حاصل کرنے کی خاطر ہوئی تھیں۔
ہٹلر نےمئی 1940 میں فرانس پر قبضہ کر لیا۔ اب اس کا واحد حریف برطانیہ تھا جو ایک طاقتور بحریہ اور دنیا بھر میں پھیلی کالونیوں کا مالک تھا۔جرمنی کے پاس نہ اتنی مضبوط بحریہ تھی نہ ہی کوئی کالونی۔ ہٹلر کا مقابلہ کرنے کے لیے برطانیہ ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، تاہم برطانیہ کی ساحل سے دور اندرونی یورپی خطوں پر مداخلت کی صلاحیت محدود تھی۔
جرمنی کی طرح برطانیہ کے پاس بھی تیل کا کوئی ذخیرہ نہیں تھا ۔ برطانیہ کو دوسرے ممالک، خاص طور پر امریکا اور وینزویلا سے تیل فراہم ہوتا تھا۔ تیل کے ٹینکرز جرمن آبدوزوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے تھے۔ جرمن آبدوزوں نے 1941 اور 1942 میں برطانوی بحریہ اور برطانوی مرچنٹ جہازوں کو کافی بڑا نقصان پہنچایا۔ تاہم بعد میں برطانوی بحریہ بڑی حد تک جرمن آبدوزوں کے حملوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
جون 1941 کو، ایک وسیع جرمن فوج نے سوویت یونین پر حملہ کیا ۔ فوج کا ایک حصہ لینن گراڈ کی طرف بڑھا، دوسرا سوویت دار الحکومت ماسکو کی طرف ۔ تیسرا حصہ یوکرین سے گزر کر کوہ قفقاز (Caucasus) میں واقع تیل کے ذخیروں کی جانب بڑھا اور باکو کی تیل ریفائنریوں اور ذخائر پر قبضہ کر لیا۔ اب ہٹلر کے پاس تیل کی کمی نہ رہی تھی۔ لیکن روسیوں نے اسٹالن گراڈ پر جوابی حملہ کیا اور جرمن فوجوں کو بتدریج پسپائی اختیار کرنی پڑی اور جلد ہی روسی تیل کے ذخائر جرمنوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
اس وقت برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ، آپریشن اوورلارڈ کے لیے تیاری کر رہے تھے – یعنی فرانس کو جرمن تسلط سے آزاد کرانا۔ لیکن فرانس میں فوجیں اتارنے سے پہلے اتحادیوں نے جرمن صنعتوں، شہروں اور فوجی تنصیبات پر ایک بڑے پیمانے پر فضائی بمباری کا آغاز کیا۔
ہزاروں سے زائد برطانوی اور امریکی بمباروں نے 1942 سے 1944 کے درمیان جرمنی پر لاکھوں بم گرائے۔ اگرچہ بیشتر بم نشانے پر نہیں لگے تاہم جرمنی کو کافی نقصان پہنچا۔ اس ساری بمباری کے باوجود 1942 کے مقابلے میں 1944 میں جرمنی نے زیادہ ہوائی جہاز اور ٹینک بنائے۔ 1943 اور 1944 میں برطانوی اور امریکی بمباروں نے رومانیہ میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ رومانیہ ہٹلر کا اتحادی تھا اور جرمنی کو تیل کی سپلائی کا اصل مرکز تھا کیونکہ روسی تیل کا قبضہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ 1944 تک جرمنی میں تیل کی شدید قلت ہو چکی تھی۔ جرمن فضائیہ کا بیشتر حصہ گراونڈ کر دیا گیا۔ فوجی دستوں کی نقل و حمل میں مشکلات آنے لگیں۔ جب نورمنڈی میں اتحادیوں نے فوجیں اتاریں تو جرمن فوج تیل کی کمی کی وجہ سے فوراً کمک پہنچانے میں ناکام رہی۔ 1944 کی گرمیوں میں اتحادیوں نے جرمنوں کو فرانس کے ایک بڑے حصے سے نکال باہر کیا۔ ہٹلر نے دسمبر 1944 میں بیلجیئم کی بندرگاہ Antwerp پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تاکہ فرانس میں موجود اتحادی فوجوں کو تیل نہ پہنچ پائے۔ اگر اس کی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو جنگ کا نقشہ پلٹ جاتا۔ لیکن ہٹلر کے ٹینک برف میں پھنس گئے اور یہ منصوبہ ناکام رہا۔ 1945 میں جب فرانس میں اتحادیوں کی سپلائی بحال ہوئی تو مغرب سے اتحادیوں اور مشرق سے روسیوں نے جرمنی کی طرف پیشقدمی کری اور برلن کا محاصرہ کر لیا۔ 8 مئی 1945ء کو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔
اور یہ تیل کی قلت تھی جس نے بالآخر جرمنی اور جاپان کو شکست سے دوچار کیا۔[22]
ہٹلر کی تقریریں۔ ویڈیو
ہٹلر جرمنی کا مقبول ترین لیڈر تھا۔ تاریخ انسانی کی یہ شخصیت جمہوری طریقہ سے منتخب ہوکر ڈکٹیٹر کے درجہ پر فائز ہوا،نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا لیڈر ایڈولف ہٹلر 1930کے انتخابات میں منتخب ہوکر جرمنی کا وزیر اعظم(چانسلر۔ جرمنی میں آج بھی وزیر اعظم کے درجہ کے عہدہ کو چانسلر کہا جاتا ہے) بنا اس وقت جرمنی کے صدر پال وان ہڈنبرگ تھے،1934 میں صدر پال وان ہڈنبرگ کے انتقال کے بعد ہٹلر نے انابلنگ ایکٹ آف1933 کے تحت چانسلر کے عہدہ کو صدارت کے ساتھ ضم کر دیا، ہٹلر کا یہ اقدام سراسر قانونی تھا، ہٹلر ایک سیاسی پارٹی نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا نمائیدہ تھا، اسی پارٹی کو انگریزی میں NAZI پارٹی کہا جاتا ہے،تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہٹلر کے تعلق سے کچھ دلچسپ اور حیرت انگریز باتیں پتہ چلتی ہیں۔ اس کی شخصیت کو ہمیشہ منفی نظرو ں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ ایک بہت قابل اور دلیر انسان تھا۔ لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی تھیں جسے مورخین نے زیادہ نمایاں کیا۔
مورخین کے مطابق ہٹلر ایک نہایت ذہین شاطر عیار ظالم اذیت پسند خصوصیات کا حامل شخص تھا، اس کی شخصیت کو کرشمائی شخصیت کہا جاتا ہے، جب وہ لاکھوں کے مجمع کے سامنے تقریر کے لیے کھڑا ہوتا تھا تو گویا پورے مجمع پر جادو کردیتا تھا، الفاظ ہٹلر کے لیے کھلونا تھے اور انداز بیان اتنا دلچسپ کا مجمع محصور ہوکر رہ جاتا تھا۔ ہٹلر کی مقبولیت کی بنیاد اس کی پارٹی کے نظریات تھے اور آئندہ چل کر انھیں نظریات کی بنا پر نہ صرف جرمنی کے دو ٹکرے ہوئے بلکہ تاریخ انسانی کی بدترین شخصیتوں میں ہٹلر کا شمار ہوا، آج بھی جس طرح مسلمانوں میں یزید کا نام ایک لعنت سمجھا جاتا ہے مغربی اقوام کے لیے ہٹلر کا نام اسی طرح لعنت تسلیم کیا جاتاہے، 1945میں ہٹلر کے خاتمہ کے بعد شاید کسی ماں نے اپنے بچہ کا نام ہٹلر نہیں رکھا ہو۔
ہٹلر کے ناجی نظریات جن کے سامنے پوری جرمنی کی قوم آمنا صدقنا زندہ باد کے نعرہ لگاتی تھی ان نظریات کا کفارہ یہ قوم اب تک ادا کر رہی ہے اور آج کی جرمنی کی نسل اپنے اجداد کی غلطی پر آج تک شرمندہ اور اقوام عالم کے سامنے طلب گار معافی بنی ہوئی ہے۔ یہودیوں کا ماننا ہے کہ ہٹلر نے جرمی اور پولینڈ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اسی نسل کشی کو یہودی Holocaust. کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ہٹلر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ایک بہت اچھا پینٹر تھا۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- اجازت نامہ: CC0
- http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11907574g — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- Adolf Hitler
- ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6ww7k9k — بنام: Adolf Hitler — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/adolf-hitler — بنام: Adolf Hitler — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Nationalencyklopedin
- https://www.ushmm.org/wlc/en/article.php?ModuleId=10007430
- فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/cgi-bin/fg.cgi?page=gr&GRid=4708 — بنام: Adolf Hitler — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- اجازت نامہ: CC0
- عنوان : Adolf Hitler’s Family Tree — اشاعت اول — صفحہ: 29 f
- مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Гитлер Адольф — ناشر: Great Russian Entsiklopedia, JSC
- Time — اخذ شدہ بتاریخ: 31 جنوری 2017 — مدیر: Nancy Gibbs — ناشر: Time Inc.
- https://www.biography.com/people/adolf-hitler-9340144 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 جولائی 2018
- https://www.celebheights.com/s/Adolf-Hitler-2572.html — اخذ شدہ بتاریخ: 5 نومبر 2018
- مصنف: Alan Bullock — عنوان : Hitler
- https://starschanges.com/adolf-hitler-family/ — اخذ شدہ بتاریخ: 19 جولائی 2018
- http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11907574g — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- مائیکل بیرن باؤم۔ دنیا لازمی جانے، ریاست ہائے متحدہ امریکا کا یادگار عجائب گھر برائے مرگ انبوہ، pp.125ff.
- "نازیوں کے غیر یہودی شکار" دائرۃ المعارف برٹانیکا.
- مائیکل بیرن باؤم: دنیا لازمی جانے، ریاست ہائے متحدہ امریکا کا عجائب خانہ برائے مرگ انبوہ، 2006، صفحہ نمبر 103۔
- Full text of "Gottfried Feder The German State On A National And Socialist Foundation"
- How Oil Defeated The Nazis