محمد رضا شاہ پہلوی

محمد رضا شاہ پہلوی ایران میں اسلامی انقلاب سے قبل ایران کے آخری بادشاہ تھے۔

محمد رضا شاہ پہلوی
(فارسی میں: محمد رضا پهلوی‎) 
محمد رضا شاہ پہلوی

معلومات شخصیت
پیدائش 26 اکتوبر 1919 [1][2][3][4][5][6] 
تہران [1] 
وفات 27 جولا‎ئی 1980 (61 سال)[2][3][4][5][6] 
قاہرہ  
وجۂ وفات لیمفو ما  
مدفن مسجد رفاعی  
طرز وفات طبعی موت  
شہریت ایران  
نسل ایرانی
زوجہ شہزادی فوزیہ فواد
فرح دیبا پہلوی  
اولاد شهناز پہلوی
رضا پہلوی
فرح ناز پہلوی
علی رضا پہلوی
لیلیٰ پہلوی
والد رضا شاہ پہلوی  
خاندان پہلوی خاندان  
مناصب
شاہ  
دفتر میں
16 ستمبر 1941  – 11 فروری 1979 
رضا شاہ پہلوی  
 
دیگر معلومات
پیشہ سیاست دان  
اعزازات
 رائل وکٹورین چین (1948)
 آرڈر آف دی وائیٹ لائن
 گرینڈ کراس آف دی لیگون آف ہانر
 جی سی بی  
دستخط
محمد رضا شاہ پہلوی
IMDB پر صفحہ 

شاہ محمد رضا پہلوی (1980ء - 1919ء) کو اپنے اقتدار پر اتنا اعتماد تھا کہ کہ انھوں نے اپنے لیے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی دو بیویوں کو صرف اس لیے طلاق دے دی کہ وہ ان کے لیے وارث سلطنت پیدا نہ کرسکیں۔ آخر میں انھوں نے تیسری بیوی فرح دیبا سے اکتوبر 1960ء میں شادی کی۔ ان کے بطن سے ولی عہد رضا پیدا ہوئے۔ مگر اس کے بعد خود شاہ کو سلطنت چھوڑ کر جلاوطن ہو جانا پڑا۔

نياران پيلس Narayan Palace كی تعمير 1958ء ميں شروع ہوئی شہنشاہ ايران محمد رضا پہلوی نے دنيا بھر كی ناياب اشياء اس ميں جمع كيں اور دس سال بعد 1968ء ميں اس ميں رہائش پذير ہوئے۔ انقلاب ايران تک وہ اسی محل ميں اپنی ملكہ فرح پہلوی کے ہمراہ مقيم تھے اور يہیں سے انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔ محل كی ہر چيز كو محفوظ کر ديا گيا ہے۔ اسی محل کے سا‍تھ ايک اور قديم محل موجود ہے جو قاچار خاندان كے زير استعمال رہا تھا اور بعد ميں شہنشاہ ايران نے اسے اپنے سركاری آفس میں تبديل كر ليا تھا۔ محل سے ملحقہ شہنشاہ ايران کے آفس میں دنيا كی عظيم شخصيات كی تصاوير ركھی گئی ہیں جن میں سابق وزيراعظم پاكستان ذو الفقار علی بھٹو كی تصوير بھی موجود ہے۔

کے بادشاہ کا دورہ ایران فضائیہ
شاہ کی قبر اور الرفاعی مسجد

جلا وطنی

مختلف اسباب کے تحت ایران میں خمینی انقلاب آیا۔ 16 جنوری، 1979ء کو شاہ محمد رضا پہلوی ایران سے باہر جانے کے لیے اپنے خصوصی ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ ملک سے باہر جانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے آمادہ کیا۔ 11 فروری 1979 میں ایران کی شاہی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں پھرتے رہے۔ [7]۔ سب سے پہلے مصر کے شہر اسوان گئے، اس کے بعد مراکش کے شاہ حسن دوم کے مہمان رہے۔ مراکش کے بعد بہاماس کے پیراڈائز آئی لینڈ میں قیام پزیر ہوئے اور پھر میکسیکو سٹی کے قریب کورناواکا شہر میں میکسیکو کے صدر جوز لوزپیز پورٹیلو کے مہمان بنے۔ چھ ہفتے نیویارک کے ہسپتال کورنیل میڈیکل میں جراحتی علاج کرواتے رہے۔ قیام کے دوران ڈیوڈ ڈی نیوسم کے خفیہ نام کا استعمال کیا جو اس وقت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کا اصل نام تھا۔ ایران میں امریکی سفارتی خانے کے جلائے جانے پر شاہ ایران کو امریکا سے جانا پڑا۔ فیڈل کاسترو کی وجہ سے میکسیکو نے دوبارہ میزبانی سے انکار کر دیا، مجبوراََ پانامہ کے تفریحی جزیرے اسلا کونتا دورا میں قیام کیا۔ پانامہ میں مقامی افراد کے ہنگاموں اور فوجی حکمران کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر مارچ 1980 میں مصر کی سیاسی پناہ قبول کر لی۔ یہاں تک کہ 27 جولائی، 1980ء کو قاہرہ کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔ موت کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار ملین پونڈ سے بھی زیادہ تھی۔[8]

حوالہ جات

  1. مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Мохаммед Реза Пехлеви — ناشر: Great Russian Entsiklopedia, JSC
  2. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6np2ccv — بنام: Mohammad Reza Pahlavi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/cgi-bin/fg.cgi?page=gr&GRid=20223 — بنام: Mohammad Reza Shah Pahlavi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/2736435 — بنام: Reza Pahlevi (2) — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000002176 — بنام: Mohammad Reza Pahlavi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mohammed-mohammed-resa — بنام: Mohammed Resa — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. اخبار جہاں، ہفت روزہ، 10-04 فروری 2019
  8. ہندوستان ٹائمز 31 جولائی 1980

تصاویر

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.