رضا پہلوی دوم
رضا پہلوی (پیدائش 30 اکتوبر 1960ء) جو سابقہ ایرانی سامراجی ریاست کے ولی عہد اور جلد وطن کیے گئے پہلوی خاندان کے سربراہ ہیں۔ وہ ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا پہلوی اور ملکہ فرح دیبا کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔
| ||||
---|---|---|---|---|
(فارسی میں: رضا پهلوی) | ||||
![]() | ||||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 31 اکتوبر 1960 (59 سال)[1] تہران | |||
رہائش | پوٹومیک، میری لینڈ | |||
شہریت | ![]() | |||
مذہب | اسلام [2]، اہل تشیع [2]، شیعہ اثنا عشریہ [2] | |||
والد | محمد رضا شاہ پہلوی | |||
والدہ | فرح دیبا پہلوی | |||
خاندان | پہلوی خاندان | |||
دیگر معلومات | ||||
مادر علمی | جامعہ جنوبی کیلیفونیا ولیمز کالج | |||
تعلیمی اسناد | بیچلر | |||
پیشہ | سیاست دان ، کارکن انسانی حقوق ، پائلٹ | |||
پیشہ ورانہ زبان | فارسی [3]، انگریزی ، فرانسیسی | |||
اعزازات | ||||
![]() | ||||
دستخط | ||||
![]() | ||||
ویب سائٹ | ||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ | |||
رضا نکالے گئے ایک خود ساختہ مخالف گروہ، قومی مجلس ایران کے بانی[4] اور سابق لیڈر اور ایران کی اسلامی جمہوری حکومت کے بڑے حریف ہیں۔[5]
بطور ولی عہد، رضا نے لابوک، ٹیکساس کے نزدیک ریز ایئر فورس بیس میں فضائی فوجی تربیت کے لیے سنہ 1977ء میں انقلاب ایران سے دو سال پہلے ایران چھوڑ دیا۔[6] وہ اُس وقت کے بعد سے ایران واپس کبھی نہیں آئے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم

رضا پہلوی تہران، ایران میں پیدا ہوئے، وہ شاہ ایران محمد رضا پہلوی اور شاہ بانو ایران فرح پہلوی کے سب سے بڑے جائز بیٹے تھے۔ رضا کے بہن بھائیوں میں ان کی بہن فرحناز پہلوی، بھائی علیرضا پہلوی، بہن لیلا پہلوی، سوتیلی بہن شہناز پہلوی شامل ہیں۔
ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سامراجی ایرانی فضائی فوج میں وہ جونیئر افسر کی حیثیت سے قبول کیے گئے، تاہم سنہ 1977ء میں سترہ برس کی عمر میں ریاستہائے متحدہ میں فضائی فوجی تربیت کے لیے ایران چھوڑ دیا۔[7] انہوں نے ولیمز کالج میں ایک سال گزارا، لیکن ایران میں کھلبلی مچنے کے بعد انہیں چھوڑنے کو مجبور کیا گیا۔[حوالہ درکار] شاہی نظام ختم ہونے اور اسلامی جمہوریہ نظام نافذ ہونے کے بعد رضا نے کبھی ایران کی طرف مُڑ کر نہیں دیکھا۔
انہوں نے یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا سے سیاسیات میں بی ایس سی کیا ہے۔
ولی عہد نے کامیابی کے ساتھ امریکی فضائیہ کا انڈرگریجویٹ پائلٹ ٹریننگ پروگرام لابوک، ٹیکساس کے سابق ریز ایئر فورس بیس سے مکمل کیا۔ اس کے فوراً بعد ایران عراق جنگ شروع ہوئی، رضا نے اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف کمانڈر، جنرل ولی اللہ فلاحی کو خط میں خود کو پائلٹ کے طور پر رکھنے کی پیشکش کی۔ ان کی پیشکش ٹھکرا دی گئی تھی۔[8]
27 جولائی 1980ء میں والد کے انتقال کے بعد وہ پہلوی خاندان کے سربراہ بن گئے تھے۔
حوالہ جات
- این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=xx0005602 — اخذ شدہ بتاریخ: 23 نومبر 2019
- https://www.nytimes.com/2009/06/28/magazine/28fob-q4-t.html
- http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12005956r — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- Maciej Milczanowski (2014)، "US Policy towards Iran under President Barack Obama's Administration" (پیڈیایف)، Hemispheres: Studies on Cultures and Societies، Institute of Mediterranean and Oriental Cultures Polish Academy of Sciences (4): 53–66، ISSN 0239-8818
- "کنارهگیری شاهزاده رضا پهلوی از شورای ملی ایران؛ اعضای جدید انتخاب شدند"۔ صدای آمریکا (فارسی زبان میں)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-01-03۔
- "Archived copy"۔ مورخہ 6 جنوری 2013 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جنوری 2013۔
- Reza Pahlavi's biography on his official website
- An Interview with Reza Pahlavi. Mideastnews.com. February 2002. Retrieved on 9 June 2012.