عطا آباد جھیل

عطا آباد جھیل وادئ ہنزہ, صوبہ گلگت بلتستان, پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010ء میں وجود میں آئ۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے

یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء میں پیش آیا جب زمین سرکنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے اور شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6000 افراد بے گھر ہوئے جبکہ 25000 مزید افراد متائثر ہوئے۔ اس کے علاوہ شاہرائے قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا۔ جون 2010ء کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ کا نچلا حصہ اور گلمت کے کچھ حصے زیر آب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن سیلاب سے سب سے زیادہ متائثر ہوا جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دوکانیں سیلاب کا شکار ہوئیں۔ شاہرائے قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری ساز و سامان کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 معکب فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی۔

لینڈ سلائیڈ کے نتائج و عواقب

زمین کے سرکنے اور جھیل کی سطح بلند ہونے پر حکومتی عدم توجہ کے خلاف متائثرہ افراد نے احتجاج شروع کر دیا کہ ان کے مالی نقصان کا معاوضہ دیا جائے۔

موجودہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابقہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے علاوہ پنجاب کے وزیرِ اعلٰی شہباز شریف نے بھی عطا آباد کا دورہ کیا۔ حکومتِ پنجاب کی جانب سے شہباز شریف نے متائثرین کی امداد کے لیے 10 کروڑ روپے اور لینڈ سلائیڈ سے مرنے والے افراد کے لواحقین کو 5 لاکھ روپے فی کس دینے کا اعلان کیا۔ ¨

جون 2010 کے پہلے ہفتے میں جب پانی بند کے اوپر سے بہنے لگا تو نشیبی علاقوں کے لوگ سیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہونے لگے۔ تاہم حکومتی اور امدادی اداروں کے مطابق کسی بھی بڑے سیلاب کے امکانات بہت کم تھے۔ بہت سارے لوگوں کو بننے والے 195 امدادی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔ بہاؤ کے پاس موجود دو ہسپتالوں کو بھی خالی کر الیا گیا۔ چند سرکاری افسران کا یہ اندازہ غلط نکلا کہ جھیل کے بھرنے کے بعد جو پانی بہے گا وہ 60 فٹ بلند لہر کی صورت میں ہوگا۔

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.