نواز شریف
میاں محمد نواز شریف (ولادت: 25 دسمبر، 1949ء، لاہور) پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ۔ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار ء2013 تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان پر رہے۔ اس سے پہلے 1985 تا 1990 وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔
نواز شریف | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
![]() | |||||||
مناصب | |||||||
وزیر اعلیٰ پنجاب | |||||||
دفتر میں 9 اپریل 1985 – 13 اگست 1990 | |||||||
| |||||||
![]() | |||||||
دفتر میں 6 نومبر 1990 – 18 اپریل 1993 | |||||||
| |||||||
وزیر خزانہ پاکستان | |||||||
دفتر میں 6 اگست 1993 – 7 نومبر 1998 | |||||||
| |||||||
![]() | |||||||
دفتر میں 19 اکتوبر 1993 – 5 نومبر 1996 | |||||||
| |||||||
![]() | |||||||
دفتر میں 17 فروری 1997 – 12 اکتوبر 1999 | |||||||
| |||||||
رکن چودہویں قومی اسمبلی پاکستان | |||||||
رکن مدت 1 جون 2013 – 28 جولائی 2017 | |||||||
حلقہ انتخاب | حلقہ این اے۔120 | ||||||
پارلیمانی مدت | چودہویں قومی اسمبلی | ||||||
![]() | |||||||
دفتر میں 5 جون 2013 – 28 جولائی 2017 | |||||||
| |||||||
وزیر دفاع پاکستان | |||||||
دفتر میں 7 جون 2013 – 27 نومبر 2013 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 25 دسمبر 1949 (70 سال)[1] اور 25 دسمبر 1940 (79 سال)[2] لاہور | ||||||
رہائش | وزیراعظم ہاؤس لاہور اسلام آباد جدہ | ||||||
شہریت | ![]() | ||||||
جماعت | پاکستان مسلم لیگ (1993–) پاکستان مسلم لیگ (ن) | ||||||
زوجہ | کلثوم نواز | ||||||
اولاد | مریم نواز ، حسین نواز ، حسن نواز | ||||||
والد | میاں محمد شریف | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور پنجاب یونیورسٹی لا کالج | ||||||
تخصص تعلیم | ایڈمنسٹریشن | ||||||
تعلیمی اسناد | بی اے ،فاضل القانون | ||||||
پیشہ | وزیر اعظم پاکستان ، کرکٹ کھلاڑی ، کارجو ، وکیل | ||||||
کھیل | کرکٹ | ||||||
اعزازات | |||||||
اگ نوبل انعام ![]() ![]() آرڈر آف دی ریپبلک میڈل آف ترکی | |||||||
دستخط | |||||||
![]() | |||||||
IMDB پر صفحہ | |||||||
نواز شریف ایک درمیانی امیر گھرانے شریف خاندان میں پیدا ہوئے۔ اتفاق گروپ اور شریف گروپ کے بانی میاں محمد شریف ان کے والد اور تین بار وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے شہباز شریف ان کے بھائی ہیں۔ نواز شریف نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تجارت کی تعلیم اور 1970ء کی دہائی کے آخر میں سیاست میں داخل ہونے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1981ء میں محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دوران میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ کچھ حمایتیوں کے سبب، نواز شریف ضیا دور ہی میں، وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے، جس پر دوبارہ مارشل لا کے بعد 1988ء میں منتخب ہوئے۔ 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کی، جس پر فتح ملی اور وزیر اعظم بنے۔ بعد میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نے نواز شریف کے حق میں انتخابی عمل میں لاکھوں روپے کی رشوت سیاست دانوں میں تقسیم کی۔
پہلی شریف انتظامیہ کو غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا، جس پر نواز شریف نے عدالت عظمیٰ پاکستان سے رجوع کیا۔ 15 جون 1993ء کو منصف اعلیٰ نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کو بحال کر دیا۔ نواز شریف نے جولائی 1993ء میں ایک معاہدے کے تحت استعفا دے دیا جس کے باعث صدر کو بھی اپنا عہدا چھوڑنا پڑا۔ نواز شریف فروری 1997ء میں بھاری اکثریت سے دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوئے۔[3][4] انہیں اکتوبر 1999ء میں جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی فوجی بغاوت میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔[5][6]
ذاتی زندگی اور تعلیم

نواز شریف 25 دسمبر 1949ء[7][8] کو پنجاب، لاہور میں کشمیری[8] شریف خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواز شریف کی والدہ کا تعلق پلوامہ سے تھا۔[9] ان کے والد میاں محمد شریف ایک کشمیری صنعت کار و تاجر تھے جن کا تعلق کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے تھا، وہاں سے ہجرت کر کے وہ جاتی عمرہ، امرتسر میں چلے گئے اور وہاں کاروبار شروع کیا، محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان جاری تھی، جس کے نتیجے میں 1947ء میں پاکستان آزاد ہو کيا تو، وہ امرتسر سے لاہور منتقل ہو گئے۔ میاں محمد شریف شروع میں ڈاکٹر طاہر القادری سے متاثر تھے، بعد ازاں وہ عدم تقلید کی طرف مائل ہو گئے۔ نواز شریف نے ابتدائی تعليم سينٹ اينتھنيز ہائیاسکول، لاہور سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گريجويشن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے قانون (وکالت) کی ڈگری حاصل کی۔
سیاسی تاریخ
نوازشریف کی سیاسی تربیت پاکستان کے فوجی آمر جنرل محمد ضیاءالحق کے زیر سایہ ہوئی۔ ضیاء دور میں وہ لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ وہ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981ء ميں پنجاب کی صوبائی کابينہ ميں بطور وزيرِخزانہ شامل ہو گئے۔ وہ صوبے کے سالانہ ترقياتی پروگرام ميں ديہی ترقی کے حصے کو 70% تک لانے ميں کامياب ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کھيلوں کے وزير بھی رہے اور صوبے میں کھيلوں کی سرگرميوں کی نئے سرے سے تنظيم کی۔
آمریت کے زیرِ سایہ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات ميں مياں نواز شریف قومی اور صوبایی اسمبليوں کی سيٹوں پہ بھاری اکثريت سے کامياب ہوئے۔ 9 اپريل ،1985ء کو انھوں نے پنجاب کے وزيرِاعلٰی کی حيثيت سے حلف اٹھايا۔ 31 مئی 1988ء کو جنرل ضياءالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا تاہم مياں نواز شريف کو نگران وزیراعلٰی پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔[10] یہ امر نوازشریف کے جنرل ضیاء سے قریبی مراسم کی نشان دہی کرتا ہے۔ جنرل ضیاء نے ایک بار نوازشریف کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی۔
1988ء میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے جب جنرل جیلانی نے خفیہ فنڈ استعمال کیا اور رقمیں تقسیم کیں تو نواز شریف صاحب نے بھی اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔[حوالہ درکار] انہوں نے جنرل جیلانی کے ایماء اور فراہم کردہ سرمائے سے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔ اس کھلی دھاندلی کے ذریعے نواز شریف 1988ء کے انتخابات ميں دوبارہ وزيرِاعلٰی منتخِب ہوئے۔[حوالہ درکار] ان کی اس مدت ميں مّری اور کہُوٹہ ميں زبردست تّرقی ہوئی۔
بطور وزیر اعظم
6 نومبر 1990ء کو نواز شريف نے اس وقت بطور منتخِب وزيرِاعظم حلف اُٹھايا جب ان کی انتخابی جماعت،اسلامی جمہوری اتحاد نے اکتوبر 1990ء کے انتخابات ميں کاميابی حاصل کی۔ تاہم وہ اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکے اور ان کو اس وقت کے صدر نے ان کو ان کے عہدے سے فارغ کر ديا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ اعظمٰی نے ايک آئينی مقدمے کے بعد انھيں دوبارہ ان کے عہدے پہ بحال تو کر ديا،ليکن ان کو جولائي 1993ء ميں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفا دينا پڑا۔ ان کے زمانۂ وزارتِ اعظمٰی کے دوران میں، نجی شعبہ کے تعاون سے ملکی صنعت کو مضبوط بنانے کی کوششیں کی گئيں۔ غازی بروتھا اور گوادر بندرگاہ جيسے منصوبے شروع کيے گئے- سندھ کے بے زمین ہاريوں ميں زمينيں تقسیم کی گئیں۔ وسطی ایشیائی مسلم ممالک سے تعلقات مستحکم کیے گئے۔ اقتصادی تعاون تنظیم کو ترقی دی گئی۔ افغانستان کے بحران کو حل کرانے ميں مدد دی گئي اور مختلف افغان دھڑوں نے "معاہدۂ اسلام آباد" پہ دستخط کيے۔ ان کے دورِحکومت کی اہم خوبی، پریسلر ترمیم کے تحت نافذ کی گئيں امریکی پابندیوں کے باوجود معاشی ترقی کا حصول تھی۔ اکتوبر 1999ء میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کے کی تعیناتی کی کوشش کی۔ فوج کا کردار قومی سیاست میں کم کرنے کی یہ دیانتدارانہ کوشش ان کے لیے آفت بن گئی اور ایک فوج بغاوت کے بعد ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
جلاوطنی
فوج کی طرف سے ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان پر مقدمہ چلا، جو "طیارہ سازش کیس" کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں اغوا اور قتل کے الزامات شامل تھے۔ فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوج حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست، 2007ء کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔[11][12]
ایمرجنسی
- تفصیلی مضمون ایمرجنسی کا نفاذ 2007ء
ایمرجنسی کے نفا ذ کے بعد نواز شریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب کے پرویز مشرف پر دباؤ کے نتیجے میں 25 نومبر، 2007ء کو لاہور پہنچ گئے۔[13]
انتخابات 2013ء
2013 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اس بنا پر وہ تیسری بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔
ایف آئی آر
انقلاب مارچ کے دوران میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مداخلت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران میں شہید ہونے والے 14 افراد کے قتل اور 90 سے زائد کے شدید زخمی ہونے والوں کو انصاف دلانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔[14]
نااہلی

نواز شریف پانامہ کیس کی سماعت کے بعد 28 جولائی 2017ء کو نااہل قرار پائے۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Nawaz-Sharif — بنام: Nawaz Sharif — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
- دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Nawaz-Sharif — بنام: Nawaz Sharif — اخذ شدہ بتاریخ: 1 ستمبر 2019 — ناشر: کتب خانہ کانگریس
- Syed Shoaib Hassan (12 مارچ2009)۔ "Profile: Nawaz Sharif"۔ BBC News۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2012۔ Check date values in:
|date=
(معاونت) - Celia W. Dugger (14 اکتوبر 1999)۔ "Pakistan Calm After Coup; Leading General Gives No Clue About How He Will Rule"۔ نیو یارک ٹائمز۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2012۔
- "Nawaz Sharif"۔ Encyclopædia Britannica on-line۔ 1 جون 2003۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 ستمبر 2012۔
- Anatol Lieven۔ Pakistan: A Hard Country۔ PublicAffairs۔ صفحہ 244۔ آئی ایس بی این 978-1-61039-021-7۔
- Muzamil Jaleel (6 جون 2013)۔ "As Nawaz Sharif becomes PM, Kashmir gets voice in Pakistan power circuit"۔ The Indian Express۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جون 2013۔
- نواز شریف - گلوبل سکیورٹی
- روزنامہ نیشن، 24 اگست 2007ء، "They can come back"
- روزنامہ نیشن، 24 اگست 2007ء، "Friend turned foe"
- روزنامہ نیشن، 26 نومبر 2007ء، "نواز شریف کی واپسی"
- شریف برادران کے خلاف قتل کی ایف آئی آر
مزید مطالعہ و مآخذ
- Jon Boone (17 مئی 2013)۔ "Nawaz Sharif: A rightwing tycoon who has won over leftist liberals – for now"۔ Editorial and special report published by American journalist Jon Boone۔ Islamabad: The Guardian, Pakistan Bureau۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2015۔
- "BBC: Profile of Nawaz Sharif"۔ BBC News۔ 11 دسمبر 2000۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- "BBC, Timeline: Pakistan's political rivals"۔ BBC News۔ 26 ستمبر 2007۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- "Nawaz Sharif becomes Prime Minister"۔ Story of Pakistan۔ مورخہ 19 مارچ 2012 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- "Pakistan Muslim League (Nawaz Group) Pakistan"۔ پی ایم ایل-این۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- "PML N – Nawaz Sharif's Profile"۔ elections.com.pk۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- "Nawaz Sharif in 2008"۔ Canadian Broadcasting Corporation۔ 18 اگست 2008۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- Helene Cooper؛ Mark Mazzetti (20 جولائی 2009)۔ "Nawaz Sharif"۔ نیو یارک ٹائمز۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
- Martin Williamson (28 نومبر 2007)۔ "Cricket tragics: Eleven politicians who would have preferred to have been watching cricket instead"۔ ای ایس پی این کرک انفو۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2012۔
بیرونی روابط
- باضابطہ ویب سائٹ
- PML(N)
- "Profile of Nawaz Sharif"۔ ای ایس پی این کرک انفو۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل صادق حسین قریشی |
وزیر اعلیٰ پنجاب 1985–1990 |
مابعد غلام حیدر وائیں |
ماقبل غلام مصطفیٰ جتوئی قائم مقام |
وزیر اعظم پاکستان 1990–1993 |
مابعد بلخ شیر مزاری قائم مقام |
ماقبل بلخ شیر مزاری قائم مقام |
وزیر اعظم پاکستان 1993 |
مابعد معین الدین احمد قریشی قائم مقام |
ماقبل بینظیر بھٹو |
قائد حزب اختلاف 1993–1996 |
مابعد بینظیر بھٹو |
ماقبل معراج خالد قائم مقام |
وزیر اعظم پاکستان 1997–1999 |
مابعد پرویز مشرف بطور چیف ایگزیکٹیو پاکستان |
ماقبل شاہد حامد قائم مقام |
وزیر دفاع پاکستان 1997–1999 |
مابعد پرویز مشرف |
ماقبل سرتاج عزیز |
وزیر خزانہ پاکستان قائم مقام 1998 |
مابعد اسحاق ڈار |
ماقبل میر ہزار خان کھوسو قائم مقام |
وزیر اعظم پاکستان 2013–2017 |
مابعد شاہد خاقان عباسی |
وزیر دفاع پاکستان 7 جون 2013–26 نومبر 2013 |
مابعد خواجہ محمد آصف | |
سیاسی جماعتوں کے عہدے | ||
ماقبل فدا محمد خان |
رہنما پاکستان مسلم لیگ-نواز 1993–1999 |
مابعد کلثوم نواز شریف |
ماقبل شہباز شریف |
رہنما پاکستان مسلم لیگ-نواز 2011–2017ء |
مابعد شہباز شریف |
موجودہ |