شہاب الدین غوری

شہاب الدین سلطنت غوریہ کا دوسرا اور آخری حکمران تھا جو 1202ء سے 1206ء تک سلطنت غوریہ کا حکمران رہا۔

شہاب الدین غوری
شہاب الدین غوری
شہاب الدین غوری

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1160  
وفات سنہ 1206 (4546 سال) 
غزنی  
وجۂ وفات لڑائی میں مقتول  
مدفن ضلع جہلم  
شہریت افغان  
بہن/بھائی
خاندان سلطنت غوریہ  
عملی زندگی
پیشہ بادشاہ  

بحیثیت نائب حکمران

شہاب الدین محمد غوری کا تعلق سور پشتون قبیلے سے تھا۔ سیف الدین ثانی کے انتقال کے بعد غیاث الدین غوری سلطنت غوریہ کے تخت پر بیٹھا اور اس نے 567ھ بمطابق 1173ء میں غزنی کو مستقل طور پر فتح کرکے شہاب الدین محمد غوری جس کا اصل نام معز الدین محمد غوری ہے[1] غزنی میں تخت پر بٹھایا۔ غیاث الدین نے اس دوران ہرات اور بلخ بھی فتح کرلئے اور ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا۔

سلطان شہاب الدین غوری اگرچہ اپنے بھائی کا نائب تھا لیکن اس نے غزنی میں ایک آزاد حکمران کی حیثیت سے حکومت کی اور پاکستان اور شمالی ہندوستان کو فتح کرکے تاریخ میں مستقل مقام پیدا کر لیا۔ 598ھ میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ پوری غوری سلطنت کا حکمران بن گیا۔

فتوحات

شہاب الدین محمد غوری کی فوجی کارروائیاں موجودہ پاکستان کے علاقے سے شروع ہوئیں اور وہ مشہور عالم درہ خیبر کی بجائے درہ گومل سے پاکستان میں داخل ہوا۔ اس نے سب سے پہلے ملتان اور اوچ پر حملے کیے جو غزنویوں کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسماعیلی فرقے کا گڑھ بن گئے تھے۔ یہ اسماعیلی ایک طرف مصر کے فاطمی خلفاء کے ساتھ اور دوسری طرف ہندوستان کے ہندوؤں سے قریبی تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ غور کے حکمران عام مسلمانوں کی طرح عباسی خلافت کو تسلیم کرتے تھے اور اسماعیلیوں کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ محمد غوری نے 571ھ بمطابق 1175ء میں ملتان اور اوچ دونوں فتح کرلئے اس کے بعد 575ھ بمطابق 1179ء میں محمد غوری نے پشاور اور 576ھ بمطابق 1182ء میں دیبل کو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کو بحیرہ عرب کے ساحل تک بڑھادیں۔ لاہور اس کے نواح کا علاقہ ابھی تک غزنوی خاندان کے قبضے میں تھا جن کی حکومت غزنی پر جہانسوز کے حملے کے بعد لاہور منتقل ہو گئی تھی۔ شہاب الدین محمد غوری نے 582ھ بمطابق 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت کو بالکل ختم کردی۔

ترائن یا تراوڑی کی پہلی جنگ (1191ء)

لاہور اور پاکستان کو فتح کرنے کے بعد شہاب الدین نے بھٹنڈہ کو فتح کیا جو پہلے غزنوی سلطنت میں شامل تھا لیکن اس وقت دہلی اور اجمیر کے ہندو راجہ پرتھوی راج چوہان کے قبضے میں تھا۔ پرتھوی راج نے جب یہ سنا کہ شہاب الدین نے بھٹنڈہ فتح کر لیا ہے تو وہ ایک زبردست فوج لے کر جس کی تعداد دو لاکھ تھی مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلا۔ دہلی کے شمال مغرب میں کرنال کے قریب ترائن یا تراوڑی کے میدان میں دونوں افواج میں خوب لڑائی ہوئی لیکن شہاب الدین کی فوج تھوڑی تھی، اس کو شکست ہوئی اور وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں ایک سپاہی اس کو بچا کر لے گیا۔ اس کے سپاہی اور جرنیل محمدغوری کوغائب دیکھ کر بددل ہو گئے اور میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ محمد غوری کو زخمی حالت میں لاہور لایاگیا جہاں سے وہ غزنی پہنچا۔

ترائن یا تراوڑی کی دوسری جنگ 1192ء

شہاب الدین کو اس شکست کا اتنا رنج ہوا کہ ایک سال تک اس نے عیش و آرام کی زندگی نہیں گزاری۔ اس نے اپنے جرنیلوں سے بات چیت تک ترک کردی بعض جرنیلوں کو اس نے سخت سزائیں دیں بالآخر اس نے تمام جر نیلوں کو تربیت یافتہ فوج تیار کرنے کاحکم دیا کچھ عرصہ بعد ایک بڑی فوج جس کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزارجمع کرلی، وہ اس فوج کو لے کر پچھلی شکست کا بدلہ لینے کے لیے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر سے پرتھوی راج بھی بھارت کے ڈھائی سو راجاؤں کی مدد سے 3 لاکھ سے زائد فوج اور کئی ہزار جنگی ہاتھی لے کر روانہ ہوا۔ دونوں جرنیلوں کی افواج ایک بار پھر ترائن یا تراوڑی کے میدان میں آمنے سامنے ہوئیں۔ راجا پرتھوی راج چوہان نے محمد غوری کو خط لکھا اور نصیحت کی کہ اپنے سپاہیوں کے حال پر رحم کھاؤ اور انہیں لے کر غزنی واپس چلے جاؤ ہم تمہارا پیچھا نہیں کریں گے۔ لیکن شہاب الدین غوری نے نہایت متانت سے جواب دیا کہ وہ اپنے بھائی کے حکم کے مطابق عمل کرتاہے اس لیے بغیر جنگ کے واپسی ناممکن ہے۔ اگلے دن دونوں افواج کا آمنا سامنا ہواجنگ سورج طلوع ہونے سے پہلے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی۔ شہاب الدین غوری کو فتح ہوئی اور پرتھوی راج کو شکست ہوئی اس نے میدان جنگ سے بھاگ کر جان بچائی مگر دریائے سرسوتی کے پاس سے گرفتار ہواسلطان محمد غوری کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا۔

جنگ کے نتائج

اس جنگ کے دور رس نتائج برآمد ہوئے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ رہا اگرچہ قنوج اور انہلواڑہ کے راجاؤں نے اطاعت سے انکار کیا مگر شکست کھاکر مسلمانوں کے سامنے جھک گئے۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت ہندوستان میں قائم ہوئی جو 1857ء تک قائم رہی۔

شمالی ہند و بنگال کی فتح

پرتھوی راج کو شکست دینے کے بعد شہاب الدین نے دہلی اور اجمیر بھی فتح کر لیا اور اس کے سپہ سالار ملک محمد ابن بختیار خلجی نے آگے بڑھ کر بہار اور بنگال کو زیر نگین کیا۔ اس طرح پورا شمالی ہندوستان اور پاکستان مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔

ہندوستان اور بنگال میں مسلم اقتدار کے بانی اور ایک بیدار مغز حکمران کی حیثیت سے شہاب الدین کا پایہ بہت بلند ہے۔ اس کی فتوحات محمود غزنوی کی لشکر کشی کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔ وہ محمود کی طرح کسی علاقے کو فتح کرکے واپس نہیں جاتا تھا بلکہ اس کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیتا تھا۔ اس نے بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی مستقل حکومت قائم کردی اور اس طرح وہ کام مکمل کر دیا جو 500 سال قبل محمد بن قاسم نے شروع کیا تھا۔

کھوکھروں کا قبول اسلام

شہاب الدین کے زمانے میں غیر مسلموں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ دریائے جہلم اور سندھ کے درمیان کھوکھر نامی ایک قوم آباد تھی جن کے یہاں ایک مسلمان قید تھا۔ یہ مسلمان ان لوگوں کو اسلام کی خوبیاں بیان کرتا رہتا تھا جسے وہ لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ ایک دن ان کے سردار نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہوجائوں تو تمہارا بادشاہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ مسلمان قیدی نے جواب دیا کہ اگر تو مسلمان ہوجائو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ بادشاہ تمہارے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرے گا۔ کھوکھروں کے سردار نے جب یہ بات سنی تو اسلام لے آیا۔ مسلمان نے ایک خط کے ذریعے اپنی گفتگو کی اطلاع سلطان شہاب الدین کو دی۔ شہاب الدین نے اس کے جواب میں سردار کو انعام و اکرام سے نوازا اور علاقے کی جاگیر اس کو دے دی۔

اس کے بعد اس کی قوم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کھوکھر بہت سی برائیوں میں مبتلا تھے جن میں ایک ”دختر کشی“ بھی تھی۔ یہ لوگ عہد جاہلیت کے عربوں کی طرح لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ بری رسم بھی ختم ہو گئی۔ پاکستان میں بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کے پٹھان بھی اسی زمانے میں اسلام لائے ۔

شہادت

یہ وہ زمانہ تھا جب سلجوقیوں کے بعد خراسان اور ترکستان میں خوارزم شاہی خاندان کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ غوریوں کی اس خاندان سے مسلسل لڑائیاں رہتی تھیں۔ غیاث الدین کے بعد شہاب الدین کے زمانے میں یہی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں کے سلسلے میں شہاب الدین 601ھ میں خوارزم تک پہنچ گیا لیکن وہاں اس کو شکست ہوئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ محمد غوری جنگ میں کام آگیا۔ اس خبر کے پھیلنے پر پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کردی۔ محمد غوری فوراً پنجاب آیا اور بغاوت فرو کی لیکن بغاوت فرو کرنے کے بعد جب وہ واپس جا رہا تھا تو دریائے جہلم کے کنارے ایک اسماعیلی فدائی نے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔ ان کا مقبرہ ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں چکوال موڑ جی ٹی روڈ کے قریب واقع ہے۔ شہاب الدین محمد غوری کی شہادت کے ساتھ غوری خاندان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ ہرات اور غزنی کے علاقوں پر خوارزم شاہ کی حکومت قائم ہو گئی اور برصغیر پاک وہند میں محمد غوری کے وفادار غلام اور دہلی میں سلطان کے نائب قطب الدین ایبک نے ایک مستقل اسلامی حکومت یعنی سلطنت دہلی کو خاندان غلاماں کے زیر عصر قائم کرلی۔

متعلقہ مضامین

سلطنت غوریہ

سلطنت غزنویہ

مزید مطالعہ کے لیے

  • آئینہ حقیقت نماز از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی
  • تاریخ اسلام حصہ چہارم از اکبر شاہ خان نجیب آبادی
  • تاریخ فرشہ حصہ اول
  • تاریخ ہندوستان حصہ اول از ذکاء اللہ

حوالہ جات

  1. ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں صفحہ17 ابو الحسنات ندوی
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.