اسلام اور سکھ مت

اسلام ایک ابراہیمی مذہب ہے جس کی ابتدا جزیرہ نما عرب میں ہوئی جبکہ سکھ مت برصغیر میں شروع ہونے والے دھرمی مذاہب میں سے ایک ہے۔ اسلام کا مطلب (اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے) "اطاعت و فرماں برداری" ہے[1][2] اور لفظ سکھ سنسکرت زبان سے نکلا ہے جس کے معنیٰ "شاگرد، چیلا یا طالب علم" کے ہیں۔[3] دونوں مذاہب کی تعلیمات مواحدانہ ہیں اور ان کے پیروکار خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں۔ صوفی مسلم اور سکھ مت دونوں کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق "ایک" ہے۔[4][5][6]

اسلام اور دیگر مذاہب

باب:اسلام

صوفیا سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ننانوے صفات اپنی مخلوق میں گاہے بگاہے ظاہر اور تقسیم کرتا ہے[4] جبکہ سلفی مسلمانوں کا عقیدہ مختلف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حضوصیات اور صفات اس کی مخلوق سے الگ ہیں اور اللہ صرف اپنے تخت پہ براجمان ہے۔[7] اسلامی عقیدہ ہے کہ پیغمبر محمد آخری نبی تھے جن پر ساتویں صدی عیسوی میں قرآن نازل ہوا۔ سکھ مت کی بنیاد بابا گرو نانک نے پندرھویں صدی عیسوی میں رکھی۔ گرنتھ صاحب سکھ مت کی مقدس کتاب اور صحیفہ ہے اور سکھ گرنتھ صاحب کو زندہ گرو مانتے ہیں۔[5][8] اسلامی قوانین کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے جسے شریعت کہتے ہیں۔ دوسری طرف گرنتھ صاحب میں کوئی مخصوص احکامات نہیں۔ ہر مسلمان پر روزانہ پانچ نمازیں ادا کرنا فرض ہے[9] اور نماز اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔ اسلام میں سالانہ زکوۃ دینا لازمی ہے۔[10] سکھ مت میں ایک رسم نت نام ہے جس میں پنج بنی (عبادت) کا پڑھنا شامل ہے۔ گرو نانک کے وضع کردہ چند عقائد "کِرت کرتا" (بغیر کسی بے ایمانی اور برائی کے زندگی بسر کرنا)، "نام جپنا" (خدائے واحد کا ذکر کرنا) اور "ونڈ چکر" (خدمتِ خلق) سکھ مت کے بنیادی عقائد میں سے ہیں۔ حج کرنا اسلام میں بہت اہم ہے جبکہ سکھ مت میں حج اور ختنہ کی رسم کی سخت مخالفت ملتی ہے۔[11] سکھ مت کے دسویں گرو گوبند سنگھ کے مطابق تمام رسومات و زیارات سکھ اپنے گرودوارے میں سر انجام دیں۔ تاریخ میں سکھ مت اور اسلام کے درمیان میں تعمیری مماثلت اور تخریبی محاذ آرائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ سکھوں کی روحانی کتاب گرنتھ صاحب میں مسلمان صوفی سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھنے والے بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر اور کبیر کی تعلیمات اور اشعار درج ہیں۔[12][13][14] جبکہ سکھ مت کے دس گروؤں[15][16][17][18] میں سے دو گرو گرو ارجن دیو اور گرو تیغ بہادر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُنہیں اسلام قبول نہ کرنے کے جُرم میں قتل کر دیا گیا تھا۔[19][20] نیز گرو گوبند سنگھ کے بچوں،[21][22] ان کے چند ساتھیوں بندہ سنگھ بہادر، متی داس، بھائی ستی داس اور بھائی دیالا[18][21][22] کو اسلام قبول کرنے سے انکار[23][15][22][21] اور برصغیر میں ہندوؤں اور سکھوں پر مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔[24][20][16][18] بعض روایات کے مطابق یہ تمام باتیں من گھڑت قصے ہین جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔[25]

تقابل

عقائد

خدا

سکھ مت کا ماننا ہے کہ خدا (نرنکار) بے ہیئت اور کسی واضح شکل کے بغیر ہے۔[5][26] یہ عقیدہ وحدت الوجود[6] اور عقیدہ توحید کی ایک قسم ہے۔[5]

"نرگن" کے مطابق خدا ایک غیر صفاتی، مبہم، نادیدہ مگر ہرجہ موجود اثرپذیر شے کا نام ہے جبکہ "سرگن" کے مطابق خدا کی خوبیاں، صفات تمام مخلوق میں آشکار ہیں۔ (اِک اونکار۔ خدا ایک ہے وہی لازوال حقیقت ہے وہ بے خوف و نفرت ہے پیدائش و موت سے ماورا غیر فانی خدا)۔

اسلام سختی سے خد اتعالیٰ کی وحدانیت پر زور دیتا ہے۔ اسلام کے مطابق خدا ایک ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں۔ اسلام بت پرستی یا دیوی دیوتاؤں کے ماننے سے بیزار ہے۔ یہ توحیدی نظریہ اسلام میں شہادت (گواہی) کہلاتا ہے۔[27][28] یہ اسلامی عقیدے شہادت کا حصہ ہے۔[28]

کہہ دو اللہ ایک ہے اللہ بےنیاز ہے نا اُس نے کسی کو جنا اور نا وہ جنا گیا۔ اور اُسکا کوئی ہمسر نہیں۔ (قرآن۔ سورہ اخلاص)[29]

روحانی پیشوا/رسول

سکھ مذہب کا ماننا ہے کہ گرو نانک عظیم پیشوا اور سب سے بڑے گرو یا اُستاد ہیں جنہوں نے خدائے عظیم کی تعلیمات دُنیا میں پھیلائیں اور سکھوں کے دس گروؤں کی شکل میں خدا کی صفات و خصوصیات کا ظہور ہوا۔ سکھ مت کا ماننا ہے کہ دوسرے مذاہب میں بھی روحانی پیشوا گزرے ہیں مثلاً کرشن، موسٰی، عیسیٰ اور محمد۔[5]

اسلام کا ماننا ہے کہ محمد سے پہلے بہت سے انبیا کرام دُنیا میں آئے۔ اور محمد اللہ کے آخری نبی اور قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ آخری کتاب ہے۔[30][31]

قوانینِ مذاہب

اسلام میں پانچ بنیادی ارکان/قانون ہیں جن پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔ یہ ارکان 1-شہادت (گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں)[32] 2-نماز، 3-روزہ، 4-زکوۃ اور 5-حج شامل ہیں۔ یہ ارکانِ اسلام شیعہ اور سنی مسلم دونوں میں یکساں رائج ہیں۔[33][34]

سکھ مت میں تین بنیادی قوانین ہیں۔ نام 1-جپنا، 2-کِرت کرنی اور 3-ونڈ چکھنا۔[35]

اصطباغی امرت دھاری سکھ خالصہ فرقہ ہے جس کی بنیاد1699 میں سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ نے رکھی تھی ان کے عقیدہ میں کاف مذہب سکھ کا لازمی جُز ہیں۔

1-کیس (غیرتراشیدہ بال) 2-کنگھا 3-کرپان 4-کڑا 5-کچھا

امرت دھاری سکھ دن میں سات مختلف عبادتوں کے مجموعے کو ادا کرتے ہیں ان لازمی عبادتوں کو "نت نام" کہا جاتا ہے۔

معاشرتی عقائد

سکھ مذہب میں معجزوں کے متعلق متضاد اور ملا جلا رد عمل پایا جاتا ہے۔ خود سکھ مت میں اور دوسرے مذاہب کے خلاف تفریق کو سختی سے رد کیا جاتا ہے۔[36][36] مذہبی رسومات کی اجازت نہیں مگر معاشرتی یا علاقائی رسم و رواج سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔[8] سکھ مت میں ناکتخدائی اور رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔[37] بانی سکھ مت گُرو نانک نے ہندو مت کے عقیدہ حیاتِ نو کو اپنایا اور تناسخ کی تعلیم دی۔[37] مذہبی کتاب آدی گر نتھ دوسرے مذاہب کی روحانی تعلیمات کو مانتا اور اپنانے کی تعلیم دیتی ہے۔[8][38] اسلام اپنے آپ کو مکمل اور آخری مذہب قرار دیتا ہے[38] اور قرآن و سنت کے خلاف کسی بھی تعلیم کو بدعت قرار دے کر سخت مخالفت کرتا ہے۔[8] اسلام میں معجزات کی بہت اہمیت ہے اور یومِ آخر (قیامت) پر یقین ایمان کا حصہ کہلاتا ہے۔[39]

تبدیلئ مذہب

کسی بھی مسلمان کی مذہب سے کنارہ کشی، دہریت یا مذہب کی تبدیلی کو ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے جس کی سزا موت ہوتی ہے۔[32][40] جان ایسپوسیٹو کے مطابق "حدیث میں ہے کہ مذہب کی تبدیلی کی سزا سر قلم کرنا یا تصلیب یا جلاوطنی ہے مزید یہ کہ ایسے شخص کا سر تلوار سے قلم کرنا چاہیے۔ جبکہ جدید مفکر قرآن کی سورہ البقرہ آیت دو سو ستاون کی رو سے (لا اکرہ فی الدین) تبدیلئ مذہب کے بارے میں تمام سزاؤں کو غلط اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔"[32]

سکھ مذہب میں اپنی من پسند راہ چننے اور ضمیر کے مطابق عمل کرنے کی مکمل آذادی ہے۔[41]

دوسرے مذاہب کے متعلق خیال

سکھ مذہب کے مطابق تمام مذاہب اُنکی روایات مستند ہیں جو اُسی واحد "واہ گرو" کی طرف لے جاتی ہیں۔ اور انسانیت پر کسی ایک مذہب کی اجاراداری نہیں۔[42]

اسلام کے مطابق دوسرے تمام مذاہب میں انسانوں نے اپنی دلی خواہشات کے ترمیم اور ردوبدل کر دی ہے۔[43][44]

حوالہ جات

  1. "Online Etymology Dictionary"۔ www.etymonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-04۔
  2. Lewis, Barnard؛ Churchill, Buntzie Ellis۔ Islam: The Religion and The People۔ Wharton۔ صفحہ آئی ایس بی این 9780132230858۔
  3. "Online Etymology Dictionary"۔ www.etymonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-05-25۔
  4. William Chittick، Sufism: A Short Introduction
  5. Jagbir Johal۔ Sikhism today۔ Continuum۔ صفحات 1–2۔ آئی ایس بی این 978-1-4411-8140-4۔
  6. Sikhism in Its Relation to Muhammadanism، ص 12، گوگل کتب پر
  7. Alexander Stewart (2016-07-01)، Chinese Muslims and the Global Ummah: Islamic Revival and Ethnic Identity، صفحہ 43، آئی ایس بی این 9781317238478
  8. Gurapreet Singh۔ The soul of Sikhism۔ صفحہ 18۔ آئی ایس بی این 978-81-288-0085-6۔
  9. Mary Fisher۔ Living religions : an encyclopedia of the world's faiths۔ صفحہ 353۔ آئی ایس بی این 978-1-86064-148-0۔
  10. Priya Rai۔ Sikhism and the Sikhs۔ Greenwood Press۔ صفحات 230–233۔ آئی ایس بی این 978-0-313-26130-5۔
  11. D.S Chahal (Editors: John Peppin etc.)۔ Religious perspectives in bioethics۔ London u.a: Taylor & Francis۔ آئی ایس بی این 978-0-415-54413-9۔
  12. Michael Shapiro۔ Songs of the Saints from the Adi Granth۔ Journal of the American Oriental Society۔ صفحات 924, 925۔
  13. Pashaura Singh۔ The Guru Granth Sahib: Canon, Meaning and Authority۔ Oxford University Press۔ صفحات 174–180۔ آئی ایس بی این 978-0-19-564894-2۔
  14. Pashaura Singh (2005), Understanding the Martyrdom of Dhan Dhan Sri Guru Arjan Dev Ji, Journal of Punjab Studies, 12(1), pages 29-62
  15. McLeod، Hew (1987). "Sikhs and Muslims in the Punjab". South Asia: Journal of South Asian Studies 22 (s1): 155–165. doi:10.1080/00856408708723379.
  16. Christopher V. Hill، South Asia: An Environmental History، صفحہ 73، آئی ایس بی این 9781851099252
  17. Eleanor Nesbitt۔ Sikhism: A Very Short Introduction۔ Oxford University Press۔ صفحہ 24۔ آئی ایس بی این 978-0-19-106276-6۔
  18. "From the article on Tawhid in Oxford Islamic Studies Online"۔ Oxfordislamicstudies.com۔ 2008-05-06۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-08-24۔
  19. Malise Ruthven۔ Historical Atlas of Islam۔ Harvard University Press۔ صفحہ 14۔ آئی ایس بی این 978-0-674-01385-8۔
  20. "112. The Unity, Sincerity, Oneness Of Allah"۔ Islam101.com۔
  21. Fethullah Gülen۔ The Messenger of God Muhammad : an analysis of the Prophet's life۔ صفحہ 204۔ آئی ایس بی این 978-1-932099-83-6۔
  22. Scott Noegel؛ Brannon M. Wheeler۔ Historical dictionary of prophets in Islam and Judaism۔ Scarecrow۔ صفحات 227–229۔ آئی ایس بی این 978-0-8108-4305-9۔
  23. John Esposito۔ The Oxford dictionary of Islam۔ Oxford University Press۔ صفحہ 22۔ آئی ایس بی این 978-0-19-512559-7۔
  24. See: * Mumen (1987), p.178, "Pillars of Islam"۔ Encyclopaedia Britannica Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-12-21۔
  25. Ian Knight؛ Scollins (23 مارچ 1990)۔ Richard, ویکی نویس.۔ Queen Victoria's Enemies: India No.3۔ Men-at-arms (اشاعت Paperback۔)۔ Osprey Publishing; illustrated edition۔ صفحہ 15۔ آئی ایس بی این 978-0-85045-943-2۔
  26. "Religion: Sikhism"۔ BBC۔ 1970-01-01۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-04۔
  27. Kaiyume Baksh (1 جنوری 2007)۔ Islam and Other Major World Religions۔ Trafford Publishing۔ آئی ایس بی این 9781425113032۔
  28. Denise Carmody۔ Ways to the center : an introduction to world religions۔ صفحہ 339۔ آئی ایس بی این 978-1-133-94225-2۔
  29. Mark Juergensmeyer۔ The Oxford handbook of global religions۔ Oxford University Press۔ آئی ایس بی این 978-0-19-976764-9۔
  30. John Esposito۔ The Islamic world : past and present۔ New York: Oxford University Press۔ صفحات 121–122۔ آئی ایس بی این 978-0-19-516520-3۔
  31. Kecia Ali۔ Islam : the key concepts۔ Routledge۔ صفحات 10–11۔ آئی ایس بی این 978-0-415-39638-7۔
  32. Pal Kaur, Apostasy: A sociological perspective, Sikh Review, 45(1), 1997, pp. 37-40
  33. Kristen Haar۔ Sikhism۔ San Val۔ صفحات 43–44۔ آئی ایس بی این 978-1417638536۔
  34. Andrew Rippin۔ The Islamic world۔ London: Routledge۔ صفحات 252–258۔ آئی ایس بی این 978-0-415-60191-7۔
  35. Munim Sirry۔ Scriptural polemics : the Qur'an and other religions۔ Oxford New York: Oxford University Press۔ صفحات 43–64۔ آئی ایس بی این 978-0-19-935936-3۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.