اسرائیل ناروے تعلقات

اسرائیل ناروے تعلقات سے مراد وہ دو طرفہ تعلقات ہیں جو اسرائیل اور ناروے کے بیچ جاری ہیں۔ ناروے ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اسرائیل کو اس کے قیام کے وقت سے تسلیم کیا۔ یہ 4 فروری 1949ء کی بات ہے۔ دونوں ممالک نے اسی سال ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اسرائیل کا سفارت خانہ اوسلو میں قائم ہے جو ناروے اور آئس لینڈ کے لیے کام کرتا ہے۔

اسرائیل ناروے تعلقات

اسرائیل

ناروے

ناروے کا سفارت خانہ تل ابیب میں ہے اور دو قونصل خانے ایلات اور حیفا میں ہیں۔ 553 اسرائیلی شہری ناروے میں رہتے ہیں اور 260 نارویئی شہری اسرائیل میں قیام پزیر ہیں۔ [1][2]

سیاسی تعلقات

اوسلو میں موجود اسرائیلی سفارت خانہ
اوسلو میں امن کے لیے اسرائیل کے ساتھ (ایم آئی ایف ایف)
ناروے کی وزیر خارجہ اینے میری ایریکسین سوریئیڈ اسرائیلی صدر ریووین ریولین کے ساتھ 2018ء میں۔

1981ء میں مزدور اتحاد کے کچھ ارکان نے ناروے کی مزدور تحریک میں اسرائیل کے احباب (نارویئی زبان: Venner av Israel i Norsk Arbeiderbevegelse) نامی تنظییم قائم کی۔ اس کا مقصد اسرائیلی اور نارویئی مزدور تحریکوں کے تعلقات کو غیر رسمی اور شخصی طور پر تقویت پہنچانا تھا۔ اس کے لیے اسرائیل کو وفود بھیجے گئے اور اسرائیلی ملاقاتیوں کا خیر مقدم کیا گیا۔

اسرائیل نے اوسلو کے لیے ایک اسرائیلی دروز شاعر اور یونیورسٹی لیکچرر نعیم ارادی کو اپنا سفیر منتخب کیا تھا۔ ان کے نائب جارج ڈیک تھے جو حیفا کے ایک عرب مسیحی تھے۔[3] جارج ڈیک سفارت خانے کے سب سے اہم فرائض کو عبوری طور پر انجام دے رہے تھے جب تک کہ نئے سفیر رفائل شولٹز سفیر کے عہدے پر 2014ء کے گرما میں فائز نہیں ہوئے تھے۔

ناروے کی تیسری سیاسی جماعت کے قائد سیو جینسین اسرائیل کی کٹر حامی ہیں اور انہوں نے یہ دعوٰی کیا کہ "انہیں اسرائیل کے حق مدافعتِ خود کا دفاع کرنے سے وہ نہیں چوکیں گی۔" وہ 2008ء کی گرما میں اسرائیل کے شہر سدیروت کا دورہ کر چکی ہیں اور حماس کی جانب سے داغی گئی راکٹ کا بہ ذات خود مشاہدہ کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق ان کو خود کو اور دوسروں کو "فضائی حملے سے پناہ گاہ کے لیے دوڑ لگانا پڑا" تھا۔ انہوں نے ناروے کی حکومت کی جانب سے حماس کو تسلیم کیے جانے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ "آپ دہشت گردوں سے مفاہمت نہیں کر سکتے۔ آپ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔" [4] 2009ء میں وہ اوسلو میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوئی تھی جسے "اسرائیل کو جینے دو" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ [5]

ناروے کی پولیس سیکیوریٹی سرویس کو ڈر تھا کہ جینسین کسی حملے کا شکار ہو سکتی ہے اگر چیکہ وہ خود بے پروا تھی۔ [6] حالاں کہ ماہرین سیاسیات نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پروگریس پارٹی اسرائیل کی زبردست حمایت کی وجہ سے وہ زیادہ ووٹروں کو پانے سے کی بجائے کھو دے گی،[7][8] انتخابات سے پتہ چلا کہ ان کی پارٹی کی حمایت میں اضافہ ہوا تھا۔[9]

فوجی تعلقات

ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج میں کئی نارویئی فوجی شامل ہیں۔ 2007ء میں 24 نارویئی یہودی اسرائیلی فوج میں بھرتی کے بعد کام کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔[10]

ستمبر 2010ء میں جرمنی کے اسرائیلی بحریہ کے لیے دو نئے ڈولفن کلاس سب مرین کے تجربے کے بعد ناروے نے ان پر اپنے علاقائی پانی میں تجربہ کرنے پر پابندی لگادی تھی۔ اس کی وجہ یہ خدشہ تھا کہ مستقبل میں ان کا غزہ پٹی کی ناکا بندی کے نفاذ میں استعمال ہو سکتا ہے۔[11]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Statistics Norway – Persons with immigrant background by immigration category, country background and sex. 1 جنوری 2009
  2. Number of registered at the embassy. Actual numbers are likely higher.
  3. "Israel Appoints Two Arab Diplomats in Norway"۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  4. Bruce Bawer (دسمبر 2008)۔ "A Norwegian Thatcher?"۔ Standpoint۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  5. Eivind Fondenes (1 ستمبر 2009)۔ "- Israels krigføring var også terror"۔ TV2۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  6. "Politiet frykter angrep på Siv Jensen"۔ VG۔ 8 جنوری 2009۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  7. "- Frps Israel-støtte gir velgertap"۔ Dagbladet۔ 8 جنوری 2009۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  8. Heidi Schei Lilleås (9 جنوری 2009)۔ "- Siv spiller høyt"۔ Nettavisen۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  9. Lars Joakim Skarvøy (13 جنوری 2009)۔ "Dette kan Siv ha tjent på"۔ Nettavisen۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  10. "Forsvarets forum » Seksjoner » Aktuelt » Ja, vi elsker Israel"۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  11. "Ynetnews - Homepage"۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.