حماس

حرکۃ المقاومتہ الاسلامیہ یعنی حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی مزاحمتی تحریک ہے۔ اس کی بنیاد غزہ اور غرب اردن میں اسرائیلی قبضے کے خلاف 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔

Hamas
بانی احمد یاسین, عبد العزیز رنتیسی and Mahmoud Zahar
Chief of the Political Bureau خالد مشعل[1][2]
Deputy Chief of the Political Bureau Mousa Abu Marzouq[1][2]
تاسیس 1987ء (1987ء)[3][4]
پیشرو Palestinian اخوان المسلمین
صدر دفتر
نظریات Palestinian self-determination
اہل سنت سیاست اسلامیہ,[5]
Islamic fundamentalism,[6] Palestinian nationalism
مذہب اہل سنت
بین الاقوامی اشتراک اخوان المسلمین
Legislative Council
74 / 132
جماعت کا پرچم
ویب سائٹ
hamasinfo.net

گروہ کا سب سے اہم مقصد اسرائیلی فوج کو فلسطین کی سرزمین سے باہر کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔

اس کے طویل المدتی مقاصد میں فلسطین کا ایک اسلامی ریاست کے طور پر قیام ہے۔

فلسطین کے سابق صدر یاسر عرفات کے انتقال کے بعد حماس نے مقامی سطح پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا اور غزہ، قلقیلیا اور نابلس کے علاقوں میں متعدد نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس کی سب سے بڑی فتح حالیہ انتخابات میں واضح کامیابی ہے جس کے مطابق ایسا لگتا ہےکہ وہ نئی حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کر لے گی۔

فلسطین کی اس پرانی تنظیم کے سیاسی اور عسکریت پسند بازو موجود ہیں۔ تنظیم کے کئی نامعلوم سرگرم کارکن تو ہیں ہی اس کے علاوہ ہزاروں حمایتی اور ہمدرد ہیں۔

دسمبر دو ہزار دو میں غزہ شہر میں حماس کے قیام کی پندریویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔

اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے مرحوم رہنما شیخ احمد یاسین شہید نے 2025 تک اسرائیل کے صفحہ ہستی سے ختم ہوجانے کی پیشن گوئی کی تھی۔

دو ہزار چار میں احمد یاسین اور ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی شہید کی شہادت کے بعد ہزاروں افراد ان کے قتل پر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔

پہلامعاشرتی امور جیسے کہ سکولوں، ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر اوردوسرا عسکریت پسند کارروائی۔ اس قسم کی کاروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔

شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا البتہ ان کے جانشین کنگ عبداللہ دوم ، جس کی والدہ ایک انگریز عورت ہے، نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کے بڑے رہنما قطر جلا وطن کر دیے گئے۔

اس خطے میں امریکی پشت پناہی سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ہونے والے اوسلو معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش تھی۔

اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔

انیس سو پچانوے میں حماس نے اپنے ایک بم بنانے والے کارکن یحییٰ عیاش کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد فروری اور مارچ انیس سو چھیانوے کے دوران بسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔یحییٰ عیاش بنیادی طور پر یاک انجینئر اور عز الدین القسام برگیڈ کی کاروائیوں میں جدت لانے والا گوریلا کمانڈر تھا جس کو اسرائیلی مھندس الموت(موت کا انجینئر)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان خودکش حملوں کے بعد اسرائیل نے امن کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد اسرائیل کےقدامت پسند رہنما بنیامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اوسلو معاہدے کے مخالفوں میں سے ایک ہیں۔

حماس نے مہاجرین کے کیمپوں اور گاؤں میں شفاخانے (کلینک) اور سکول قائم کیے جہاں فلسطینیوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اس وقت فلسطینی پی این اے کی بدعنوان اور نااہل حکومت سے مایوس ہو چکے تھے اور ان کی اکثریت نے حماس کے خودکش حملوں پر خوشی کا اظہار کیا اور ان خودکش حملوں کو اسرائیل سے انتقام لینے کا سب سے بہتر راستہ جانا۔

اپنی پالیسیوں کی وجہ سے حماس نے 2006 کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی۔2006, 2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات کافی شدت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فلسطین میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کی کئی کوششیں ہوئیں۔ لیکن ان میں ناکامی ہوئی۔ آخر کار صدر محمود عباس نے جن کا تعلق الفتح سے ہے۔ جون 2007ء میں حماس کی جمہوری حکومت کو توڑ کر اپنی خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان کر دیا۔۔ ایسا کرتے وقت محمود عباس کو امریکہ اور اسرائیل دونوں کی آشیرباد حاصل تھی۔

حوالہ جات

  1. "Harakat al-Muqawama al-Islamiyya (Hamas)"۔ Transnational and non state armed groups. Humanitarian Policy and Conflict Research Harvard University۔ اخذ شدہ بتاریخ فروری 7, 2009۔
    • Islamic fundamentalism in the West Bank and Gaza: Muslim Brotherhood and Islamic Jihad, by Ziyād Abū 'Amr, Indiana University Press, 1994, pp. 66–72
    • Anti-Semitic Motifs in the Ideology of Hizballah and Hamas, Esther Webman, Project for the Study of Anti-Semitism, 1994. ISBN 978-965-222-592-4
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.