عبد العزیز رنتیسی

عبد العزيز الرنتیسی (ولادت: 23 اکتوبر 1947ء، وفات: 23 مارچ 2004ء) فلسطینی مزاحمتی تحریک کے ایک اہم ترین قائد تھے۔ وہ 23 اکتوبر 1947ء کو عسقلان اور یافا کی درمیانی بستی يبنا میں پیدا ہوئے۔ 1948ء کی جنگ کے بعد ان کا خاندان غزہ کی پناہ گزین بستی خان یونس میں پناہ گزین ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 6 ماہ تھی- رنتیسی نے نو بھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان پرورش پائی۔ 6 برس کی عمر میں رنتیسی نے رفاہی تنظیم غوث کے زیر اہتمام پناہ گزینوں کے لیے کھولے گئے ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ ان کی معاشی مشکلات نے ان کو مجبور کیا تو وہ معاش میں گھر والوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے 6 برس کی عمر ہی سے تعلیم کے ساتھ دوسرے چھوٹے موٹے کاموں میں لگ گئے تھے۔ پیشے سے ایک ڈاکٹر اور لیکچرر رہ چکے عبد العزیز الرنتیسی، احمد یاسین کے ساتھ حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ) کی تاسیس میں شریک رہے اور ان کی وفات کے بعد متفقہ طور پر حماس کے قائد اعلی منتخب ہوئے۔ متعدد مرتبہ جیل گئے اور اسرائیل کی جانب سے کیے گئے کئی جان لیوا حملوں میں بال بال بچے۔ بالآخر 23 مارچ 2004ء کو ایک اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوئے۔

عبد العزیز رنتیسی
عبد العزيز علي عبد المجيد الحفيظ الرنتيسي
 

معلومات شخصیت
پیدائش 23 اکتوبر 1947(1947-10-23)
وفات 17 اپریل 2004(2004-40-17) (عمر  56 سال)
غزہ  
شہریت دولت فلسطین  
نسل فلسطینی
مذہب اسلام
جماعت حماس  
زوجہ رشا العدلونی
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ اسکندریہ
پیشہ سیاست دان ، طبیب  
پیشہ ورانہ زبان عربی [1] 

ابتدائی تعارف

عبد العزيز رنتیسی کا مکمل نام عبد العزیز علی عبد المجيد الرنتیسی ہے۔ ان کے خاندان میں والدین کے علاوہ آٹھ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ 23 اکتوبر 1947ء کو فلسطین کے معروف علاقے یبنا میں پیدا ہوئے۔ 6 ماہ کی عمر میں والدین کے ساتھ عرب-اسرائیل جنگ کے دوران غزہ منتقل ہوئے اور خان یونس پناہ گزین کیمپ میں بچپن گزارا۔ 6 برس کی عمر میں خاندان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے اور ایک مقامی اسکول میں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ 1956ء میں ایک اسرائیلی حملے میں ان کے چچا شہید ہو گئے تھے۔ اس حادثے کا اُن کے دل و دماغ پر گہرا اثر ہوا اور اپنی قوم کے تئیں ان کی سنجیدگی میں اضافہ ہوا۔

تعلیم

رنتیسی 1965ء میں سیکنڈری تعلیم مکمل کرلی اور طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکندریہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ سنہ 1972ء میں جامعہ اسکندریہ مصر میں طب سے گریجویشن کا امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پھر وطن واپس آئے اور 1972-1973 میں ایک مرکز اسلامی، غزہ قائم کرکے قوم کی خدمت انجام دینے لگے۔ لیکن 1974 میں دوبارہ مصر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر طب کی اعلی تعلیم مکمل کی اور ماسٹرس کی سند حاصل کی۔

انہوں نے 1972ء میں نمایاں مقام حاصل کرکے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور غزہ واپس لوٹ آئے۔ دو ماہ بعد وہ چائلڈ اسپیشلائزیشن حاصل کرنے کے لیے دوبارہ اسکندریہ کا گئے۔ 1976ء میں غزہ آکر خان یونس کے مرکزی ہسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے لگے۔

میدان عمل میں

1976 کا سال عبد العزیز الرنتیسی کی زندگی کا اہم سال ہے۔ کیوں کہ اسی سال وہ جماعۃ الإخوان المسلمين سے عملی طور پر وابستہ ہوئے اور اس کے موجود قائدین سے کسب فیض کیا،جن میں سب سے اہم نام فلسطین کے قدآور مذہبی و قومی رہنما احمد یاسین شہید کا ہے۔ ان کی صحبت اور تربیت نے عبد العزیز الرنتیسی کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ احمد یاسین کو بھی عبد العزیز الرنتیسی پر پورا اعتماد ہو گیا۔ بچپن سے لے کر اب تک عبد العزیز الرنتیسی نے فلسطینی مسئلے کو جس طرح سمجھا تھا، اس کا بہترین حل ان کے مطابق اخوان المسلمین کے پاس تھا۔ اس لیے انھوں نے اخوان سے باقاعدہ وابستگی اختیار کرکے اس کے نہج پر آزادی فلسطین کی جدوجہد شروع کر دی۔

1978 میں عبد العزیز الرنتیسی جامعہ اسلامیہ، غزہ میں طب کے استاد مقرر ہوئے۔ وہ طلبہ کو بہت ذوق شوق کے ساتھ تعلیم دیتے اور تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی کرتے۔ عبد العزیز الرنتیسی کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے 1983 میں اسرائیل نے انتقام کے طور پر انہیں الأنصار اسپتال کے ایک اہم عہدے سے معزول کر دیا۔ لیکن عبد العزیز الرنتیسی نے اس کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنا کام کرتے رہے۔

اہم عہدے

ڈاکٹر رنتیسی مختلف اہم عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے جن میں مرکز اسلامی کے ادارہ جاتی مرکز کے رکن، غزہ کی طبی عربی تنظیم کے رکن اور ہلال احمر فلسطین کے رکن کی ذمہ داریاں قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غزہ یونیورسٹی میں اس کے افتتاحی سال 1978ء سے سائنس کے استاد کی حیثیت سے کام کر چکے تھے۔

حماس تحریک کا آغاز

1983ء کو اسرائیل کو ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرنے پر ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد 5 جنوری 1988ء کو اکیس دن کے لیے آپ کو رہائی دی گئی- 1987ء میں غزہ میں تحریک اسلامی کے بعض سرگرم افراد سے مل کر اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی تاسیس میں انہوں نے شرکت کی۔ اس کی تاسیس میں احمد یاسین شہید کے ساتھ ڈاکٹر محمود الزھار اور ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی بھی شریک ہوئے۔ اس تنظیم کا ماننا تھا کہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد شرعی لحاظ سے واجب ہوچکی ہے اور مسئلہء فلسطین کے حل کا یہی واحد راستا ہے۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاجی سرگرمیوں میں شرکت کی پاداش میں 4 فروری 1988ء کو آپ کو ڈھائی سال کی قید سنائی گئی- 4 ستمبر 1990ء کو آپ کی گرفتاری عمل میں آئی- 14 دسمبر 1990ء کو انہیں انتظامیہ نے اپنی حراست میں لے لیا اور وہ دو سال تک انتظامیہ کے زیر حراست رہے۔ 17 دسمبر 1992ء کو جہاد اسلامی اور حماس کے 400 جانثاروں کے ساتھ وہ جنوبی لبنان گئے- اور مرج الزھور کے پناہ گزینوں کے احتجاج میں شریک ہونے کے ساتھ اسرائیل کے زبردستی ملک بدر کیے جانے کے منشور کے خلاف زور دار احتجاجی آواز بلند کی۔ مرج الزھور سے واپسی کے فوراً بعد اسرائیلی انتظامیہ نے ان کو گرفتار کر لیا- اسرائیل کی عسکری عدالت نے ان کو قید کی سزا سنائی- 1997ء کے وسط تک وہ قید رہے۔

اسرائیل کی انتقامی کارروائیاں

حماس کی تاسیس کے بعد عبد العزیز الرنتیسی اس کے استحکام میں پوری طرح جٹ گئے۔ تقریباً 6 سال تک وہ پوری یکسوئی کے ساتھ بغیر کسی بڑی روک ٹوک کے کام کرتے رہے۔ 1993 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے انہیں گرفتار کیا اور کچھ عرصے بعد چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے بعد 1999 تک وہ بار بار قید کیے جاتے رہے۔ 2003 میں اسرائیل نے انہیں جان سے مارنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ ایک منظم سازش کے تحت بڑا حملہ ہوا۔ حملے میں عبد العزیز الرنتیسی کے کچھ ساتھی شہید ہو گئے لیکن وہ بال بال بچ گئے۔ البتہ سخت زخم لگے۔ اس جان لیوا حملے میں بچنے کے بعد بھی ان کی سرگرمیوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔[2]

حماس کے قائد اعلی

22 مارچ 2004 کو ایک بڑے حملے میں اسرائیل نے حماس کے بانی اور جسمانی طور پر پوری طرح مفلوج قائد اعلی احمد یاسین کو شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے اگلے ہی دن 23 مارچ 2004 کو ڈاکٹر عبد العزیز الرنتیسی کو متفقہ طور پر قائد اعلی منتخب کر لیا گیا[3] حماس کی قیادت سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے پیش رو قائد کی یاد میں ایک کل فلسطین جلسے کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ 27 مارچ 2004 کو یہ اجتماع منعقد ہوا، جس میں پورا فلسطین امڈ آیا۔ اس جلسے میں عبد العزیز الرنتیسی نے احمد یاسین کی شخصیت اور خدمات کا اعتراف بھی کیا اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ انھوں نے نام لے لے کر امریکی و اسرائیلی صدور کو چیلنج کیا کہ آپ ہماری سرزمین کو ہم سے نہیں چھین سکتے۔ اس اجلاس میں اُن کے ان جملوں سے ان کے مشن کا اندازہ کیا جاسکتا ہے: "امریکا اور اسرائیل نے خدا کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اور خدا نے بھی بش اور شہروں کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ میں سرزمین فلسطین کو حماس کے ہاتھوں فتح ہوتا دیکھ رہا ہوں۔" [4]

وفات

إسرائيل نے حماس کے خلاف متنازع ٹارگٹ کلنگ کا پروگرام شروع کر رکھا تھا۔ اسی کے تحت احمد یاسین پر حملہ کیا گیا تھا۔ احمد یاسین کی شہادت کے بعد عبد العزیز الرنتیسی نے تنظیم کے قدموں کو اکھڑنے سے بچایا اور فلسطینیوں کو مایوسی سے دور رکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کرتے، اُن کا وقت بھی آگیا۔ حماس کے قائد اعلی کے منصب پر فائز ہوئے ابھی انہیں 24 دن ہی گزرے تھے کہ 17 اپریل 2004 کو اسرائیل نے ان کی گاڑی پر بڑا حملہ کیا۔ اس حملے میں ڈاکٹر عبد العزیز الرنتیسی اور ان کا 27 سالہ بیٹا محمد الرنتیسی شہید ہو گئے۔[5]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb160155552 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ماہنامہ الأقصى، دہلی، شمارہ: جنوری 2013
  3. پندرہ روزہ تعمیر حیات، لکھنؤ، شمارہ: 10 اپریل 2004
  4. ماہنامہ الأقصى، دہلی، شمارہ:جنوری 2013
  5. بی بی سی نیوز، اشاعت: 17 اپریل 2004

بیرونی روابط

*https://www.facebook.com/myaqsa12/ *http://hamas.ps/en/*

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.