یوسف بنوری

آپ کا پورا نام مع لقب علامہ سید یوسف بنوری جامعہ العلوم الاسلامیہ کے بانی اور جس جگہ انکا مدرسہ واقع ہے اس جگہ کا نام کا سرکاری طور پر اندراج آپ کے نام نامی پر علامہ بنوری ٹاؤن کیا گیا۔

ولادت

آپ 4 ربیع الثانی 1326ھ بمطابق 1906ء کو پشاور کے قریب ایک گاؤں بنور میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم اپنے والد اور ماموں سے ھاصل کی۔ اس کے بعد کابل کے ایک دینی مکتب میں عربی اور ثانوی تعلیم حاصل کی۔ 1945ء سے 1947ء تک آپ نے مختلف علوم و فنون اور حدیث کی تعلیم دار العلوم دیوبند میں حاصل کی۔

اساتذہ

آپ کے اساتذہ میں عالم دین علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے اپنے دور کے نامور علما سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا۔

تدریس

فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد دار العلوم ٹنڈوالٰہ یار میں شیخ التفسیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 3سال بعد کراچی تشریف لائے اور ایک مدرسہ عربیہ اسلامیہ یعنی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن قائم کیا، جس کے بانی و مہتمم آپ تھے۔ جہاں آُ نے 45 سال تک مسند تدریس کو رونق بخشی اور درس حدیث میں مصروف رہے۔

بیعت و اجازت

آپ اشرف علی تھانوی سے بیعت ہوئے اور انہی سے خلافت حاصل کی۔

تصانیف

آپ کی تصانیف میں عربی کی 4 بڑی کتابیں اور درجنوں مقدمات شامل ہیں۔ جن میں معارف شرح جامع ترمذی (6 جلدوں میں) ایک علمی اور نفحۃ العنبر فی حیاۃالانور ایک ادبی تالیفات ہیں۔

۱- بغیة الأریب فی مسائل القبلة والمحاریب : اپنے موضوع پر عربی میں منفرد کتاب ہے ،پہلی بار قاہرہ سے ۱۳۵۷ئھ میں شائع ہوئی،اس کے بعد ”مجلس دعوت وتحقیق اسلامی“ کی طرف سے بھی شائع ہوچکی ہے ۔

۲-نفحة العنبر فی حیاة امام العصر الشیخ محمد انور: اپنے محبوب شیخ کے علمی کمالات وحالات ، علمی مزایا وخصوصیات ، اشعار ، علماء واکابر کی ان کے بارے میں رائے ، ان کے فضائل وکمالات کا حسین مرقع ہے ، آپ نے اس کتاب کو نہایت عمدہ اور اعلی عربی ادب میں پیش کیا ہے ، چنانچہ علماء عرب نے اس کی بہت قدر کی ، ایک چوٹی کے عالم نے آپ کو لکھا ” قرأت کتابک فسجدت لبیانک“ یہ کتاب پہلی بار دہلی میں ۱۳۵۳ئھ میں شائع ہوئی ، دوبارہ پاکستان میں ٹائپ سے بہترین شکل میں شائع ہوچکی ہے ۔

۳- یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن : علوم قرآن پر ایک بے نظیر علمی شاہکار ہے ، جو در اصل امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی کتاب ”مشکلات القرآن “ کا مقدمہ ہے ، ۱۹۳۶ءء میں دہلی سے اور پھر بعد میں پاکستان میں ”مجلس دعوت وتحقیق اسلامی “ کی طرف سے مستقل کتابی صورت میں ٹائپ سے شائع ہوچکی ہے ۔

۴-معارف السنن شرح سنن الترمذی : جامع ترمذی کی بے نظیر محققانہ شرح ہے ، چھ جلدوں میں ”کتاب المناسک“ تک ہوئی ہے ، ”کتاب الجنائز “ سے آخر تک کا حصہ باقی رہ گیا ہے ، افسوس یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی ورنہ علوم نبوت کے شائقین اور حدیث کے پڑھانے والوں کے لیے بہا ذخیرہ ہوتی ، آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اس کو پورا کرنا ہے لیکن: ما کل یتمنی المرأ یدرکہ تجری الریاح بما لا تشتہی السفن کچھ دنوں ”دارالتصنیف “ میں بیٹھ کر معارف السنن کی چھٹی جلدکے اخیر ابواب مکمل کیے ، ”معارف السنن“ کے مقدمہ ”عوارف المنن “ پر کچھ کام کیا لیکن پھر گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے اوپر چڑھنا دشوار ہوگیا اور کام معطل ہوگیا۔

۶- عوارف المنن مقدّمہ معارف السنن: مستقل کتابی صورت میں ایک جلد پر مشتمل ہے ، دو تہائی حصہ مکمل ہوچکا تھا ، فرمایا کرتے تھے کہ اسے چھاپنا شروع کردو ، ساتھ ساتھ مکمل کردوں گا ، مشاغل اور مصروفیات کی وجہ سے آپ کی زندگی میں اس کے طبع ہونے کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہوسکا ،اب عنقریب انشاء اللہ چھپ کر منصہ شہود پر آنے والی ہے ۔

۷- الأستاذ المودودی وشییٴ من حیاتہ وأفکارہ : یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ،اس کتاب میں حضرت بنوری رحمہ اللہ نے مولانا مودودی صاحب کے ان غلط نظریات وافکار کو پیش کیا ہے جن سے عام لوگ ناواقف ہیں اور جو ان کے نظریات وافکار وعقائدکے خراب ہونے کا ذریعہ بن سکتی ہیں ،اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے،یہ آخری تالیف ہے جو حضرت بنوری رحمہ اللہ نے تحریر فرمائی اس کا تیسرا حصہ بھی آپ نے لکھنا تھا لیکن وقت اجل آپہنچا ۔

۸- القصائد البنوریة :حضرت بنوری رحمہ اللہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ، عربی زبان میں نہایت عمدہ اور آبدار شعر کہتے تھے ، یہ کتاب آپ کی وفات کے بعد شائع کی گئی ،اس میں آپ کے تمام منظوم کلام کو یکجا کردیا گیا ہے جس میں اسلامی شاعری کی مشہور اصناف حمد ، مناجات ، نعت اور رثاء کے علاوہ بھی کافی نظمیں شامل ہیں جو آپ نے مختلف مواقع پر کہیں، ان قصائد میں سے بعض نعتیں ایسی بھی ہیں جو مصر اورشام کے مجلات کی زینت بن چکی ہیں ۔

۹- المقدمات البنوریة : حضرت بنوری رحمہ اللہ کے بہار آفریں قلم سے عربی ، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں پر علمی وتحقیقی مقدمات ہیں، ان مقدمات میں اپنے موضوع سے متعلق انتہائی نفیس اور قیمتی مباحث ہیں جو کہ آپ جیسی علمی شخصیت ہی کا خاصہ ہے ،ان مقدمات میں حدیث کی مشہور کتابوں پرانتہائی تفصیلی مقدمات بھی شامل ہیں جو عالم اسلام کے اہل علم وتحقیق سے داد تحسین بھی حاصل کرچکے ہیں،جس میں مقدمہ ”نصب الرایہ“ ، مقدمہ ”فیض الباری “، مقدمہ ”اوجز المسالک “اور مقدمہ”لامع الدراری“شامل ہیں، اس کتاب کی اشاعت بھی آپ کی وفات کے بعد عمل پذیر میں آئی ۔

۱۰-بصائر وعبر :اردوزبان میں حالات حاضرہ ، قومی وملی مسائل اور ردّ الحاد وزندقہ پر آپ کے علمی وتحقیقی مضامین اور آپ کے بے باک قلم کے اچھوتے شاہکار جامعہ کے ترجمان ”بینات “ کے صفحات پر قارئین کے لیے ہمیشہ ”بصائر وعبر“ کے نام سے بصیرت وعبرت کا سامان بہم پہنچاتے رہے ، ان تمام مضامین کو موضوعات کی ترتیب سے الگ الگ عنوانات سے دو جلدوں میں شائع کردیا گیا ہے ،یہ کتاب بھی آپ کی وفات کے بعد طبع ہوئی

اہم کارنامے

  • آپ نے تحفظ ختم نبوتﷺ کے سلسلے میں جو کارنامہ انجام دیا اس کو صدیوں تک مسلمانوں میں یاد رکھا جائے گا۔
  • پاکستان میں قادیانیت کے خلاف جو تحریک اٹھی، آپ کی قیادت میں اس تحریک نے پورے ملک میں جوش و خروش پیدا کی۔
  • انکی تحریک میں اس قدر والہانہ پن اور شدت تھی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس مسئلہ کو متفقہ طور پو منظور کیا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔

حضرت بنوری کی خدمات

  • بانی وشیخ الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاوٴن کراچی۔
  • رکن ”المجمع العلمی العربی“جمہوریہ سوریہ، شام۔
  • نگران اعلی مجلس علمی جنوبی افریقہ ،ہندوستان ،کراچی۔
  • رکن ”مجمع البحوث الاسلامیہ“ قاہرہ ، مصر۔
  • شیخ التفسیر دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار،سندھ۔
  • صدر ”وفاق المدارس العربیہ “پاکستان۔
  • رکن ”رابطة العالم الاسلامی“،مکہ مکرمہ۔
  • رکن انتخاب اساتذہ کمیٹی کراچی یونیورسٹی۔
  • صدر مجلس دعوت وتحقیق اسلامی ،کراچی۔
  • رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان۔
  • شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل۔
  • امیر وقائد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۔
  • صدرکل پاکستان مجلس عمل ۔
  • جنرل سیکریٹری جمعیة علماء ہند۔
  • صدر جمعیة علماء گجرات وبمبئی

وفات

17 کتوبر 1977ء بمطابق 3 ذی قعدہ 1397ھ بروز اتوار کو وفات پائی۔

حوالہ جات

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.