کرکٹ عالمی کپ
کرکٹ کا عالمی کپ ایک روزہ کرکٹ کا ایک اہم ٹورنامنٹ ہے جو ہر چار سال بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کا اہتمام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کرتی ہے۔ اس کے شروع ہونے سے پہلے آزمائشی ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے عالمی کپ کو کرکٹ کا سب سے اہم ٹورنامنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلا عالمی کپ 1975ء میں برطانیہ میں کھیلا گیا۔ 1973ء سے خواتین کا علاحدہ عالمی کپ کھیلا جاتا ہے۔
کرکٹ عالمی کپ | |
منتظم | انٹرنیشنل کرکٹ کونسل |
طرز کرکٹ | ایک روزہ کرکٹ |
پہلا | 1975ء |
آخری | 2015ء |
طرز ٹورنامنٹ | متعدد |
مشترکہ ٹیمیں | 20 (اب تک کے تمام) 14 (حالیہ عالمی کپ میں) 10 (اگلے میں) |
موجودہ فاتح | ![]() |
سب سے کامیاب | ![]() |
سب سے زیادہ دوڑیں | سچن ٹنڈولکر (![]() |
سب سے زیادہ وکٹ | گلین میگرا (![]() |
عالمی کپ دس ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور ICC ٹرافی میں اچھی کارکردگی دکھانے والے ممالک کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اب تک 11 عالمی کپ کھیلے جا چکے ہیں۔ آخری کپ2015 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔ آسٹریلیا کی ٹیم سب سے کامیاب ٹیم ہے جو اب تک پانچ دفعہ فاتح رہ چکی ہے۔ ویسٹ انڈیز اور بھارت دو دو دفعہ، جبکہ پاکستان اور سری لنکا ایک ایک بار کرکٹ کے عالمی کپ کے فاتح رہ چکے ہیں۔
کرکٹ عالمی کپ 2007ء مارچ 2007ء میں ویسٹ انڈیز میں کھیلا گیا جس میں 16 ٹیموں نے حصہ لیا۔ فائنل میں آسٹریلیا نے سری لنکا کو ہرا کر چوتھی بار عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔
تاریخ
پہلے کرکٹ عالمی کپ سے پہلے
سب سے پہلا بین الاقوامی کرکٹ میچ امریکا اور کینیڈا کی ٹیموں کے درمیان 24 اور 25 ستمبر، 1844ء میں کھیلا گیا۔ لیکن سب سے پہلا ٹیسٹ میچ 1877ء میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان کھیلا گیا۔ کرکٹ کو 1900ء کے المپکس کا حصہ بنایا گیا جس میں برطانیہ نے فرانس کو شکست دے کر سونے کا تمغا جیتا
سب سے پہلا کرکٹ کا ٹورنامنٹ 1912ء میں منعقد کیا گیا جس میں برطانیہ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ نے حصہ لیا۔ لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔ بعد میں جوں جوں کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کی تعداد بڑھتی گئی توں توں ٹیسٹ کرکٹ کا معیار بڑھتا گیا اور کرکٹ کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ 1960ء تک اسی طرز کی کرکٹ کھیلی جاتی رہی جس میں ٹیمیں ایک دوسری سے تین، چار یا پانچ دن تک کھیلتے رہتے۔
1962ء میں انگلینڈ نے ایک نئی طرز کی کرکٹ متعارف کرائی جس کو آج ہم ایک روزہ کرکٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ کرکٹ ابتدائی طور پر برطانیہ کی کاؤنٹی کی ٹیموں کے درمیان کھیلی گئی جو لوگوں میں کا مقبول ہوئی۔ لیکن یہ کرکٹ دوسرے ممالک کے درمیان شروع کافی عرصے بعد کی گئی۔ پھر 1971ء میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے جانے والا ٹیسٹ میچ کے دوران خراب موسم کی وجہ سے چار دن تک کوئی کھیل نہ ہو سکا۔ دونوں ٹیموں نے چالیس 40 اوور کی ایک ایک اننگز کھیلنے کا فیصلہ کیا جس میں ہر اوور آٹھ گیندوں پر مشتمل تھا۔ جو کافی پسند کیا گیا۔ ایک روزہ کرکٹ کی مقبولیت دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سب کرکٹ کھیلنے والی ٹیمون کے درمیان مقابلوں کا فیصلہ کیا جو آج کرکٹ کپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پروڈینشل عالمی کپ
سب سے پہلا عالمی کپ 1975ء میں برطانیہ میں منعقد کیا گیا۔ جو پروڈینشل کپ کے نام سے کھیلا گیا۔ اس میں پہلی مرتبہ سرخ رنگ کی گیند استعمال کی گئی اور پہلی مرتبہ ٹیموں نے سفید رنگ کا لباس پہنا۔ اس میں آٹھ ٹیموں نے حصہ لیا۔ ان میں برطانیہ، آسٹریلیا، پاکستان، بھارت، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز (اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ٹیمیں) اور سری لنکا اور مشرقی افریقہ کی ٹیمیں شامل تھیں۔
اس میں جنوبی افریقہ کو کھیلنے کی اجازت اپارتھائیڈ کی وجہ سے نہ دی گئی۔ اس میں ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو 17 رنز سے شکست دی۔ پہلے عالمی کپ کا فائنل لورڈز کے میدان میں کھیلا گیا۔ ابتدائی تین عالمی کپ برطانیہ میں کھیلے گئے۔
پہلا عالمی کپ

سات سے اکیس جون 1975 کے درمیان کھیلے گئے پہلے ورلڈ کپ میں آٹھ ٹیموں نے حصہ لیا تھا جن میں ٹیسٹ سٹیٹس کی حامل چھ ٹیموں ویسٹ انڈیز، انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت، پاکستان اور نیوزی لینڈ کے علاوہ سری لنکا اور مشرقی افریقہ شامل تھیں۔ اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں کلائیو لائیڈ کی قیادت میں کھیلنے والی ویسٹ انڈین ٹیم نے آسٹریلیا کو سترہ رنز سے شکست دی۔
دوسرا عالمی کپ

1979 میں کھیلا گیا۔ ان مقابلوں کا میزبان ایک مرتبہ پھر انگلینڈ تھا اور اس ٹورنامنٹ میں بھی پہلے ورلڈ کپ کی طرح آٹھ ٹیمیں شریک ہوئیں۔ تاہم آسٹریلیا کی ٹیم اس کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل نہیں تھی جبکہ مشرقی افریقہ کی جگہ اس بار کینیڈا کی ٹیم ٹورنامنٹ کا حصہ بنی۔ پہلے ورلڈ کی ہی طرح اس ٹورنامنٹ میں بھی میچ کی ہر اننگز ساٹھ اوورز پر مشتمل تھی۔ ان مقابلوں کو شائقین کی عدم دلچسپی اور خراب موسم کا بھی سامنا رہا۔ اس بار فائنل میں دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز اور میزبان انگلینڈ کی ٹیمیں مدِ مقابل آئیں اور ویوین رچرڈز کی شاندار سنچری اور جوئیل گارنر کی عمدہ بالنگ کی بدولت ویسٹ انڈیز نے بانوے رنز سے میچ جیت کر اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا۔
تیسرا عالمی کپ

1983 میں کھیلا گیا۔ ان مقابلوں میں بھی آٹھ ٹیمیں شریک ہوئیں جن میں نئے نئے ٹیسٹ سٹیٹس کی حامل سری لنکا کے علاوہ آئی سی سی ٹرافی کی فاتح زمبابوے کی ٹیم بھی شامل تھی۔ بھارتی ٹیم نے کپل دیو کی قیادت میں اس ورلڈ کپ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور سیمی فائنل میں میزبان انگلینڈ کو ہرانے کے بعد فائنل میں فیورٹ ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر سب کو حیران کر دیا۔ یہ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ویسٹ انڈیز کے علاوہ کوئی ٹیم یہ عالمی مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
چوتھا عالمی کپ

1987ء کا کرکٹ ورلڈ کپ پہلی مرتبہ انگلینڈ سے باہر منعقد کیا گیا اور اس بار میزبانی کا شرف بھارت اور پاکستان کے حصہ میں آیا۔ برصغیر میں دن میں روشنی کے اوقات میں کمی کی وجہ سے پہلی مرتبہ اننگز کا دورانیہ ساٹھ اوورز سے کم کر کے پچاس اوورز کر دیا گیا۔ اسی ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ غیر جانبدار امپائر متعارف کروائے گئے۔ ٹورنامنٹ کے میزبان ممالک بھارت اور پاکستان مقابلوں کے سیمی فائنل مرحلے تک تو پہنچے مگر وہاں انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے فائنل میں آسٹریلیا نے سخت مقابلے کے بعد انگلینڈ کو سات رنز سے شکست دے کر پہلی مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتا۔
پانچواں عالمی کپ

پانچواں کرکٹ عالمی کپ 22 فروری سے لیکر 25 مارچ 1992 تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں پر کھیلا گیا۔ اس ٹورنامنٹ پہلی بار رنگین وردیوں اور سفید گیند کا استعمال کیا گیا۔ جو پاکستان نے فائنل میں انگلستان کو 22 دوڑ سے ہرا کر جیتا۔ اس ورلڈ کپ میں کل نو ٹیموں نے حصہ لیا اور فائنل ملا کر 39 مقابلے کھیلے گئے۔
چھٹا عالمی کپ

سنہ انیس سو چھیانوے کے ورلڈ کپ کی میزبانی ایک مرتبہ پھر برصغیر کے حصے میں آئی اور اس مرتبہ ٹورنامنٹ پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں مشترکہ طور پر منعقد ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں کل بارہ ٹیمیں شریک ہوئیں جنہیں دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ متحدہ عرب امارات، کینیا اور ہالینڈ کو ان مقابلوں میں شرکت کا موقع ملا۔ لاہور میں ہونے والے فائنل میں اروندا ڈسلوا کے 124 گیندوں پر 107 رنز نے آسٹریلیا کے خلاف سری لنکا کو ایک بڑی فتح دلوا دی اور یوں وہ ٹورنامنٹ جیتنے والا پہلا میزبان ملک بن گیا۔
ساتواں عالمی کپ

1999 میں منعقد ہوا۔ س مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ چار برس کے وقفے کی بجائے تین برس کے بعد منعقد ہوا اور اس کی میزبانی سولہ برس بعد ایک مرتبہ پھر انگلینڈ کے حصے میں آئی۔ یہ ٹورنامنٹ راؤنڈ رابن اور ناک آؤٹ سسٹم کے تحت کھیلا گیا اور اس میں ٹیسٹ اور ون ڈے سٹیٹس کی حامل نو ٹیموں کے علاوہ آئی سی سی ٹرافی ٹورنامنٹس کی فاتح بنگلہ دیش، سکاٹ لینڈ اور کینیا کی ٹیمیں شریک ہوئیں۔ یہ ٹورنامنٹ اپنے اس سیمی فائنل کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا جب آسٹریلیا کے خلاف میچ میں جنوبی افریقہ کے ایلن ڈونلڈ ایک رن نہ بنا سکے اور رن آؤٹ ہو گئے۔ یہ میچ ٹائی ہوا لیکن آسٹریلیا بہتر ریکارڈ کی وجہ سے فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس نے پاکستان کو یکطرفہ مقابلے کے بعد ہرا کر دوسری بار یہ ٹورنامنٹ جیت لیا۔
آٹھواں عالمی کپ

2003 میں منعقد ہوا۔ نئی صدی کے پہلے اور مجموعی طور پر آٹھویں ورلڈ کپ کی میزبانی مشترکہ طور پر جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا کے حصے میں آئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ یہ عالمی مقابلے براعظم افریقہ میں منعقد ہوئے۔ نو فروری سے چوبیس مارچ تک جاری رہنے والے اس ٹورنامنٹ میں دو گروپس میں تقسیم کی گئی چودہ ٹیمیں شامل تھیں جنہوں نے چوّن میچوں میں حصہ لیا۔ یہ ٹورنامنٹ بھی راؤنڈ رابن اور ناک آؤٹ سسٹم کے تحت کھیلا گیا۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران انگلینڈ نے زمبابوے میں اور نیوزی لینڈ نے کینیا میں کھیلنے سے انکار کیا۔ دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا نے اس ورلڈ کپ میں بہترین کارکردگی دکھائی اور ایک مرتبہ پھر فائنل تک رسائی حاصل کی جہاں رکی پونٹنگ کے دھواں دار 140 رنز نے انڈیا کو کچل ڈالا اور یوں آسٹریلیا تین مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔
نواں عالمی کپ

2007 میں منعقد ہوا۔ نویں ورلڈ کپ کا میزبان پہلے دو ورلڈ کپ مقابلوں کا فاتح ویسٹ انڈیز بنا۔ تیرہ مارچ سے اٹھائیس اپریل تک جاری رہنے والے ان مقابلوں میں کل سولہ ٹیمیں شریک ہوئیں جنہیں چار گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہرگروپ میں سے دو بہترین ٹیموں نے سپر ایٹ مرحلے میں جگہ بنائی اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کی ٹیمیں سیمی فائنل مرحلے میں پہنچیں۔ ماضی میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل مرحلے سے آگے بڑھنے میں ناکام رہنے والی نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں اس بار بھی اس مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکیں اور 2007 ورلڈ کپ کا فائنل میچ ٹیموں کے لحاظ سے سنہ 1996 کے فائنل کا ری پلے ثابت ہوا۔ تاہم اس بار نتیجہ سنہ چھیانوے کے ورلڈ کپ سے الٹ رہا اور آسٹریلیا نے اٹھائیس اپریل کو کنزنگٹن اوول میں کھیلے گئے فائنل میں سری لنکا کو چھ وکٹ سے ہرا کر لگاتار تیسری بار اور مجموعی طور پر چوتھی مرتبہ یہ مقابلے جیت لیے۔
دسواں ورلڈ کپ

12 فروری 2011 سے 2 اپریل 2011 تک کھیلا گیا۔ اس کی میزبانی پاکستان، سری لنکا، ہندوستان، بنگلہ دیش کے حصے میں آئی تھی۔ مگر ناسازگار حالات کی وجہ سے پاکستان میں کھیلے جانے والے میچز ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں منتقل کر دیے گئے۔ ان مقابلوں میں کل چودہ ٹیمیں شریک ہوئیں جنہیں دو گروپ میں تقسیم کیا گیا گروپ اے میں پاکستان، سری لنکا ،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، زمبابوے، کینیا، کینیڈا اور گروپ بی میں ہندوستان، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، آئر لینڈ، ہالینڈ نے شرکت کی کہ جن میں سے چار چار ٹیمیں کوارٹر فائنل میں پہنچیں، گروپ اے میں سے پاکستان، سری لنکا ،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور گروپ بی میں سے ہندوستان، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز۔ ان میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کرسیمی فائنل میں مقام بنایا اور اس کے مقابلے مین ہندوستان نے سابق چیمپین آسٹریلیا کو ہرا کر دوسرے سیمی فائنل کو رونق بخشی اور پہلے سیمی فائنل میں سری لنکا نے انگلینڈ کو اور نیوزی لینڈ نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر حصہ لیا، پھر پہلے سیمی فائنل میں سری لنکا نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچی اوردوسرے سیمی فائنل میں ہندوستان نے پاکستان کو ہرا دیا،اس طرح 2011ء کے دسویں عالمی کپ کا فائنل 2/ اپریل کو ممبئی میں سری لنکا اور ہندوستان کے درمیان کھیلا گیا جس میں ہندوستان نے سری لنکا کو چھ وکٹ سے شکست دے اٹھائیس سال بعد دوسری مرتبہ عالمی کپ کا سہرا اپنے سر باندھا۔ اس بار مجموعی طور پر اڑتالیس مقابلے ہوئے ۔
گیارہواں عالمی کپ

2015ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقد ہوا۔ نیوزی لینڈ نے پہلی بار فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ آسٹریلیا نے فائنل میں نیوزی لینڈ کوہرا کر پانچویں بار یہ اعزاز اپنے نام کیا
بارہواں عالمی کپ

کرکٹ عالمی کپ 2019ء (باضابطہ طور پر آئی سی سی کرکٹ عالمی کپ، 2019ء) بارہواں کرکٹ عالمی کپ ہے جس کا پہلا میچ 30 مئی کو ہوا اور یہ سلسلہ 14 جولائی، 2019ء تک انگلستان اور ویلز میں جاری رہے گا۔
کارکردگی
سال | میزبان قوم (قومیں) | فائنل مقام | فائنل | ||
---|---|---|---|---|---|
فاتح | نتیجہ | رنر اپ | |||
1975 تفصیلات |
![]() انگلستان |
لارڈز کرکٹ گراؤنڈ، لندن | ![]() 291/8 (60 اوورز) |
ویسٹ انڈیز 17 رنز سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 274 تمام آؤٹ (58.4 اوورز) |
1979 تفصیلات |
![]() انگلستان |
لارڈز کرکٹ گراؤنڈ، لندن | ![]() 286/9 (60 اوورز) |
ویسٹ انڈیز 92 رنز سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 194 تمام آؤٹ (51 اوورز) |
1983 تفصیلات |
![]() انگلستان |
لارڈز کرکٹ گراؤنڈ، لندن | ![]() 183 تمام آؤٹ (54.4 اوورز) |
بھارت 43 رنز سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 140 تمام آؤٹ (52 اوورز) |
1987 تفصیلات |
![]() ![]() بھارت، پاکستان |
ایڈن گارڈنز، کولکاتہ | ![]() 253/5 (50 اوورز) |
آسٹریلیا 7 رنز سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 246/8 (50 اوورز) |
1992 تفصیلات |
![]() ![]() آسٹریلیا، نیوزی لینڈ |
میلبورن کرکٹ گراؤنڈ، میلبورن | ![]() 249/6 (50 اوورز) |
پاکستان 22 رنز سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 227 تمام آؤٹ (49.2 اوورز) |
1996 تفصیلات |
![]() ![]() ![]() بھارت، پاکستان، سری لنکا |
قذافی اسٹیڈیم، لاہور | ![]() 245/3 (46.2 اوورز) |
سری لنکا 7 وکٹوں سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 241/7 (50 اوورز) |
1999 تفصیلات |
![]() انگلستان |
لارڈز کرکٹ گراؤنڈ، لندن | ![]() 133/2 (20.1 اوورز) |
آسٹریلیا 8 وکٹوں سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 132 تمام آؤٹ (39 اوورز) |
2003 تفصیلات |
![]() جنوبی افریقہ، زمبابوے،کینیا |
وانڈررز اسٹیڈیم، جوہانسبرگ | ![]() 359/2 (50 اوورز) |
آسٹریلیا 125 رنز سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 234 تمام آؤٹ (39.2 اوورز) |
2007 تفصیلات |
![]() ویسٹ انڈیز |
کنسنگٹن اوول، برج ٹاؤن | ![]() 281/4 (38 اوورز) |
آسٹریلیا 53 رنز سے کامیاب (ڈک ورتھ لیوس) اسکورکارڈ | ![]() 215/8 (36 اوورز) |
2011 تفصیلات |
![]() ![]() ![]() بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا |
وینکاڈے اسٹیڈیم، ممبئی | ![]() 277/4 (48.2 اوورز) |
بھارت 6 وکٹوں سے کامیاب اسکورکارڈ | ![]() 274/6 (50 اوورز) |
2015 تفصیلات |
![]() ![]() آسٹریلیا، نیوزی لینڈ |
ایم سی جی، ملبورن، آسٹریلیا |
![]() 186/3 (33.1 اوور) |
آسٹریلیا 7 ووکٹ سے جیت گيا اسکور کارڈ |
![]() 183 تمام آؤٹ (45 اوور) |
2019 تفصیلات |
![]() انگلینڈ |
لارڈز میں، لندن، انگلینڈ |
|||
2023 تفصیلات |
![]() India |
||||
ٹیموں کی کارکردگی
ٹیم\ میزبان | 1975 (8) |
1979 (8) |
1983 (8) |
1987 (8) |
1992 (9) |
1996 (12) |
1999 (12) |
2003 (14) |
2007 (16) |
2011 (14) |
2015 (14) |
2019 (10) |
2023 (10) |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
![]() |
![]() |
![]() |
![]() ![]() |
![]() ![]() |
![]() ![]() ![]() |
![]() |
![]() |
![]() |
![]() ![]() ![]() |
![]() ![]() |
![]() ![]() |
![]() | |
![]() | راؤنڈ 1 | اہل | |||||||||||
![]() | دوم | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | فاتح | راؤنڈ 1 | دوم | فاتح | فاتح | فاتح | کوارٹر فائنل | فاتح | اہل | |
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سپر 8 | راؤنڈ 1 | کوارٹر فائنل | اہل | |||||||
![]() | راؤنڈ 1 | ||||||||||||
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | |||||||||
مشرقی افریقا† | راؤنڈ 1 | ||||||||||||
![]() | سیمی فائنل | دوم | سیمی فائنل | دوم | دوم | کوارٹر فائنل | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سپر 8 | کوارٹر فائنل | راؤنڈ 1 | اہل | |
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | فاتح | سیمی فائنل | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | S6 | دوم | راؤنڈ 1 | فاتح | سیمی فائنل | اہل | Q |
![]() | سپر 8 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | ||||||||||
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | ||||||||
![]() | راؤنڈ 1 | ||||||||||||
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | |||||||||
![]() | سیمی فائنل | سیمی فائنل | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | کوارٹر فائنل | سیمی فائنل | S6 | سیمی فائنل | سیمی فائنل | دوم | اہل | |
![]() | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | سیمی فائنل | سیمی فائنل | فاتح | کوارٹر فائنل | دوم | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | کوارٹر فائنل | اہل | |
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | ||||||||||
![]() | سیمی فائنل | کوارٹر فائنل | سیمی فائنل | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | کوارٹر فائنل | سیمی فائنل | اہل | |||||
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | فاتح | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | دوم | دوم | کوارٹر فائنل | اہل | |
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | |||||||||||
![]() | فاتح | فاتح | دوم | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سیمی فائنل | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | سپر 8 | کوارٹر فائنل | کوارٹر فائنل | اہل | |
![]() | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | S6 | S6 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 | راؤنڈ 1 |
ِ†سابقہ ٹیم
ظہور اول برائے ٹیم
سال | ٹیمیں |
---|---|
1975 | ![]() ![]() ![]() ![]() ![]() ![]() ![]() |
1979 | ![]() |
1983 | ![]() |
1987 | کوئی نہیں |
1992 | ![]() |
1996 | ![]() ![]() ![]() |
1999 | ![]() ![]() |
2003 | ![]() |
2007 | ![]() ![]() |
2011 | کوئی نہیں |
2015 | ![]() |
2019 | کوئی نہیں |
2023 |
†اب موجود نہیں
انعامات
مین آف ٹورنامنٹ [1]
سال | کھلاڑی | کارکردگی کی تفصیلات |
---|---|---|
1992 | ![]() | 456 رنز |
1996 | ![]() | 221 رنز اور 7 وکٹیں |
1999 | ![]() | 281 رنز اور 17 وکٹیں |
2003 | ![]() | 673 رنز اور 2 وکٹیں |
2007 | ![]() | 26 وکٹیں |
2011 | ![]() | 362 رنز اور 15 وکٹیں |
2015 | ![]() | 22 ووکٹیں |
ورلڈ کپ فائنل میں مین آف دی میچ
سال | کھلاڑی | کارکردگی کی تفصیلات |
---|---|---|
1975 | ![]() | 102 رنز |
1979 | ![]() | 138* |
1983 | ![]() | 3/12 اور 26 |
1987 | ![]() | 75 رنز |
1992 | ![]() | 33 اور 3/49 |
1996 | ![]() | 107* اور 3/42 |
1999 | ![]() | 4/33 |
2003 | ![]() | 140* |
2007 | ![]() | 149 |
2011 | ![]() | 91* |
2015 | ![]() | 3/36 |
حوالہ جات
- "کرکٹ عالمی کپ Past Glimpses"۔ webindia123.com۔ مورخہ 7 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2007۔
سانچہ:ایڈن گارڈنز