پرایوت چان او چا

پرایوت چان او چا (سابقہ ہجے پرایوتھ چان اوچا؛ تھائی: ประยุทธ์ จันทร์โอชา؛ پیدائش 21 مارچ 1954ء) ایک تھائی سیاست دان، رائل تھائی آرمی کے سبکدوش شدہ جرنیل افسر،[4] نیشنل کونسل فار پیس اینڈ آرڈر (این سی پی او) کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم تھائی لینڈ ہیں۔ کونسل جس کے ذریعے انہوں نے خود اور دوسرے جُنتا اراکین کو مقرر کیا، کے پاس وزیر اعظم کو نامزد کرنے اور وزارت عظمیٰ کے عہدوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

پرایوت چان او چا
(تائی لو میں: พลเอก ประยุทธ์ จันทร์โอชา) 
 

مناصب
وزیر اعظم تھائی لینڈ (29  )  
آغاز منصب
24 اگست 2014 
نیوتمرونگ بونسونگ پیسان  
 
معلومات شخصیت
پیدائش 21 مارچ 1954 (65 سال)[1][2][3] 
ناکھون راتچاسیما صوبہ  
شہریت تھائی لینڈ  
عملی زندگی
پیشہ فوجی افسر ، سیاست دان  
عسکری خدمات
عہدہ جرنیل  
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ 

پرایوت رائل تھائی آرمی کے سابق کمانڈر ان چیف ہیں، اس عہدے پر وہ اکتوبر 2010ء سے اکتوبر 2014ء تک فائز رہے۔[5][6] بطور سربراہ تھائی فوج تقرری کے بعد پرایوت کو ایک مضبوط حامیِ بادشاہ اور سابق وزیر اعظم تھاکسن شیناواترا کا مخالف بتایا گیا تھا۔[7] ان کو فوج میں سخت سمجھا جاتا تھا، وہ ریڈ شرٹس کے اپریل 2009ء اور اپریل-مئی 2010ء کے مظاہرین کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کے مرکزی محرکین میں سے ایک تھے۔[8][9] بعد میں انہوں نے مظاہرین جو خونریز تصادم میں ہلاک ہو گئے تھے، کے رشتہ داروں سے بات[10] اور ینگلک شنواترا جو جولائی 2011ء کے پارلیمانی انتخابات جیتی تھیں، کی حکومت کے ساتھ تعاون[11] کرتے ہوئے اپنے چہرے کی یک رُخی تصویر کو اعتدال پسند کرنے کی کوشش کی۔

نومبر 2013ء میں شروع ہونے والے سیاسی بحران جس میں ینگلک شنواترا کی نگران حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے، کے دوران میں پرایوت نے دعویٰ کیا کہ فوج غیر جانبدار تھی،[12] اور فوجی بغاوت کا ارادہ نہیں تھا۔ مئی 2014ء تک وہ اس نہج پر پہنچ گئے کہ انہوں نے حکومت کو معزول کر دیا اور پھر نیشل کونسل فار پیس اینڈ آرڈر لیڈر کے طور پر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔[13] انہوں نے عبوری آئین جاری کیا جس میں خود کو تمام طاقتیں دینے اور فوجی بغاوت کے لیے خود کو عفوِ عام کرنے کا اعلان تھا۔[14] اگست 2014ء میں قومی اسمبلی پر قابض فوجی افسران کی جانب سے غیر جمہوری طور پر پرایوت کو رائے شماری کے بعد وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔[15][16]

اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد پرایوت نے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیے۔[17] انہوں نے اپنے "بارہ اصول" تیار کیے[18][19] اور ان اصولوں کو اسکول کے بچوں کو پڑھانے کا حکم دیا[20] انہوں نے عوامی مراکز پر جمہوریت کے متعلق بحث اور اپنی حکومت پر تنقید کرنے پر پابندی عائد کی اور تھائی لینڈ میں آزادیِ اظہار پر سخت پابندیاں لگائیں۔[21]

حوالہ جات

  1. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Prayuth-Chan-ocha — بنام: Prayuth Chan-ocha — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  2. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000030127 — بنام: Prayuth Chan-ocha — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/prayuth-chan-ocha — بنام: Prayuth Chan-ocha
  4. "Army chief retires after four turbulent years"۔ دی نیشن۔ 30 ستمبر 2014۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2014۔
  5. ٹیری فریڈرکسن (1 اکتوبر 2010)۔ "Gen. Prayut takes command"۔ بینکاک پوسٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2012۔
  6. رون کوربن (1 اکتوبر 2010)۔ "Thailand's new army chief takes office"۔ ڈوئچے ویلے۔ مورخہ 22 مئی 2014 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2012۔
  7. چیکو ہیرلین (7 جون 2014)۔ "Behind Thailand's coup is a fight over the king and his successor. But it's hush-hush"۔ The Washington Post۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2014۔
  8. "Thai king appoints hardliner as next army chief"۔ دی ہندو۔ 2 ستمبر 2010۔ مورخہ 13 اپریل 2014 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اپریل 2014۔
  9. "Q+A: Are Thailand's "red shirts" regrouping?"۔ 19 نومبر 2013۔ مورخہ 2 مئی 2014 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2014۔
  10. "Gen Prayut takes command"۔ بینکاک پوسٹ۔ 1 اکتوبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2014۔
  11. "No coup, Prayut tells Yingluck"۔ بینکاک پوسٹ۔ 27 مئی 2013۔
  12. "Prayut says army neutral"۔ بینکاک پوسٹ۔ 30 نومبر 2013۔
  13. "'ประยุทธ์-เหล่าทัพ'แถลง'ควบคุมอำนาจรัฐ'"۔ کومچادلویک (تھائی زبان میں)۔ 22 مئی 2014۔ مورخہ 22 مئی 2014 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مئی 2014۔
  14. "Military dominates new Thailand legislature"۔ بی بی سی۔ 1 اگست 2014۔ مورخہ 2 اگست 2014 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اگست 2014۔
  15. "Prayut elected as 29th PM"۔ دی نیشن۔ 21 اگست 2014۔ مورخہ 23 اگست 2014 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2014۔
  16. "Thailand's Junta Chief Chosen as Prime Minister"۔ وی او اے۔ 21 اگست 2014۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2014۔
  17. "The Thai junta's latest crackdown on dissent is a bogus Facebook login button"۔ کوارٹز۔ 26 جون 2014۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2014۔
  18. "Loved and Hated, Former Premier of Thailand Is Erased From Textbook"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 15 ستمبر 2014۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2014۔
  19. "'ประยุทธ์' เตรียมปรับ 'ค่านิยม 12 ประการ' ให้คล้องจองท่องแทน 'เด็กเอ๋ยเด็กดี' แย้มมีสอบด้วย"۔ پراچتائی (تھائی زبان میں)۔ 15 ستمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2014۔
  20. پرایوت چان او چا۔ "National Broadcast, 2014-07-11" (پی‌ڈی‌ایف)۔ رائل تھائی سفارت خانہ، اسلام آباد۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2014۔
  21. ""นายกฯ"ยัน"ห้ามพูดเรื่องปชต"۔ پوسٹ ٹوڈے (تھائی زبان میں)۔ 19 ستمبر 2014۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014۔ |archiveurl= اور |archive-url= ایک سے زائد مرتبہ درج ہے (معاونت); |archivedate= اور |archive-date= ایک سے زائد مرتبہ درج ہے (معاونت)
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.