فاس

فاس، فرانسیسی میں فیس (fes or fez) مراکش کا تیسرا بڑا شہر ہے، جو فاس بولمان (Fès-Boulemane) علاقہ کا دار الحکومت ہے۔ 2004ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی نو لاکھ چھیالیس ہزار آٹھ سو پندرہ نفوس پر مشتمل ہے۔ شہر کے تین حصے ہیں فاس البالی (قدیم شہر)، فاس جدید (نیا فاس) اور ولے نوالے (فرانسیسی تعمیر شدہ شہر کا جدید حصہ)۔ فاس البالی دنیا کا سب سے بڑا گاڑیوں کی آمدورفت کا ممنوعہ علاقہ (contiguous carfree urban area) ہے۔

فاس
 

تاریخ تاسیس 789 
انتظامی تقسیم
ملک مراکش   [1]
دارالحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ فیز ( پری فیکچر )  
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 34.044166666667°N 5.0019444444444°W / 34.044166666667; -5.0019444444444   [2]
رقبہ 320 مربع کلومیٹر  
بلندی 410 میٹر  
آبادی
کل آبادی 1112072 (2014) 
  • گھرانوں کی تعداد 17342 (2014)[3][4] 
مزید معلومات
جڑواں شہر
اوقات متناسق عالمی وقت±00:00  
رمزِ ڈاک
30000–30206[7] 
فون کوڈ 05356 
آیزو 3166-2 MA-FES[8] 
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ 
جیو رمز {{#اگرخطا:2548885  |}}
نحوی غلطی
[مکمل اسکرین پر]

تاریخ

شہر کی بنیاد ادریس اول نے 789ء میں رکھی۔ 810ء میں ادریس دوم نے افریقا کی سب سے قدیم اور بڑی مسجد تعمیر کی، جس سے ملحقہ جامعہ 859ء میں تعمیر کی گئي۔ شہر شمالی افریقہ اور مشرق وسطی سے آنے والے مسلمانوں اور سقوط غرنامہ کے بعد اندلس سے بے دخل کیے گئے مسلمانوں سے آباد ہوا۔ ان کے علاوہ شہر میں یہودیوں کی آبادی بھی تھی۔

1170ء سے 1180ء کے عشرہ میں فاس دنیا کا سب سے بڑا شہر سمجھا جاتا تھا اور یہ اس وقت کی بادشاہت فاس کا دار الحکومت تھا جو موجودہ مراکش، الجزائر اور اندلس کے ان حصوں پر مشتمل تھی جو مسلمانوں کے زیر حکومت رہے۔ فاس سائنسی اور مذہبی علوم کا مرکز قرار پایا جہاں یورپ اور دوسرے علاقوں سے مسلمان اور مسیحی علم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد اندلس سے نکالے گئے مسلمان فاس میں آ کر آباد ہوئے۔ 1548ء میں فاس مراکشی حکومت کا حصہ بنا۔

1649ء میں فاس العلویون حکمران خاندان کا مرکز بنا اور اس وقت یہ شمالی افریقی ساحلوں پر سب سے اہم بندرگاہ تھا۔ انیسویں صدی تک شہر فاس ٹوپیاں بنانے کا واحد مرکز تھا جس کے بعد یہ ٹوپیاں فرانس اور ترکی میں بننے لگیں۔ اسی شہر کے ذریعے ٹمبکٹو (ٹمبکٹو) سے آنے والے سونے کی تجارت ہوتی تھی۔

فاس کئی ادوار میں مراکش کا دار الحکومت رہا ہے، جس کا اختتام 1912ء میں مراکش کے فرانسیسی اختیار میں آنے کے بعد ہوا جب دار الحکومت آخری دفعہ فاس سے رباط منتقل کیا گیا اور جو موجودہ آزاد مراکش کا دارالحکومت ہے۔ دار الحکومت کی منتقلی کے بعد کئی باشندے ہجرت کر گئے، یہودی آبادیاں خالی ہو گئیں اور فاس کی اقتصادی اہمیت ختم ہونے لگی۔ تاہم فاس آج بھی مراکش کے تمام شاہی شہروں میں سے سب سے زیادہ دلچسپ اور دلکش ہے۔

موجودہ شہر

قدیم عمارات اور نوادرات کے ساتھ ساتھ شہر جدیدیت کا مظہر بھی ہے جس کی مثال ولے نویلے ہے جو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اقتصادی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ شہر ایک بار پھر اس وقت شہرت ملی جب شاہ مراکش نے ایک فاسی کمپیوٹر انجینئر سلمہ بینانی سے شادی کی۔ شہر کی شہرت اور اہمیت اب دوبارہ بحال ہو رہی ہے جس کی ایک وجہ سالانہ فاس میلہ کی ہے جس میں دنیا بھر کی موسیقی پیش کی جاتی ہے اور جو پوری دنیا کے مداحوں کو کھینچتا ہے۔ میلہ کا آغاز مراکشی عالم اور فلسفی فاؤضی سکالی (Faouzi Skali) نے 1994ء میں کیا اور اس کے انعقاد میں تعاون بین الاقوامی بنک (عالمی بنک) کا ہے۔ اب شہر سیاحوں کے لیے ایک اہم منزل کے طور پر ابھر رہا ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.