رضوان اختر

لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر پاکستان آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ہیں۔ ان کو 22 ستمبر، 2014ء کو یہ عہدہ سونپا گیا ہے۔[1] اس سے پہلے ظہیر الاسلام سربراہ تھے، جو 4 اکتوبر،2014ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔

رضوان اختر
مناصب
ڈی جی آئی ایس آئی  
دفتر میں
7 نومبر 2014  – 11 دسمبر 2016 
ظہیر الاسلام  
نوید مختار  
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی، پاکستان  
دفتر میں
11 دسمبر 2016  – 9 اکتوبر 2017 
معلومات شخصیت
مقام پیدائش پاکستان  
عملی زندگی
مادر علمی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی، پاکستان  
پیشہ فوجی افسر  
عسکری خدمات
شاخ آئی ایس آئی  
عہدہ لیفٹیننٹ جنرل
ڈی جی رینجر سندھ  
لڑائیاں اور جنگیں شمال مغرب پاکستان میں جنگ  

فوجی دور

1982ء میں فرنٹیئر فورس میں کمیشنڈ افسر بھرتی ہوئے۔ فونٹیئر فورس کے مسلسل چھٹے آئی ایس آئی چیف ہیں جنھیں اس انفینٹری سے لایا گیا ہے۔ جنرل رضوان اختر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اچھی تعلیم اور تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے محکمۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق جنرل رضوان اختر نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی،اسلام آباد سے گریجویٹ ہیں۔ انھوں نے امریکی فوج کے پینسلوونیا میں واقع وار کالج میں جنگی کورس بھی کیا ہے۔ جنرل رضوان اختر نے پاکستان کے شمال مشرقی قبائلی علاقوں اور کراچی میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں متعدد عہدوں پر کام کیا۔[2]

چیلنجز

جنرل رضوان اختر کو اس وقت پاکستان کی اندرونی صورت حال کا چیلنج درپیش ہو گا۔ پاکستان میں گزشتہ 2 ماہ سے سیاسی حالات کشیدہ ہیں، فوج ملک کے اندر آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نتیجے میں انقلاب مارچ اور مبینہدھاندلی پر آزادی مارچ کے کارکنان 14 اگست سے مختلف مطالبات لیے بیٹھے ہیں۔ جن کی وجہ سیکورٹی ادارے مشکل صورت حال میں ہيں۔ فوج اور آئی ایس آئی پر ان دھرنوں کی پشت پنائی کا الزام مسلسل مختلف حلقے لگا رہے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان میں منصوبہ بندی سے قتل کرنے اور اغوا ہونے کے واقعات جاری ہیں، جن میں اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے مزید صوبے بنانے کی تجویز پیش کر نے سے سیاسی، لسانی اور صوبائی تعصب کے مسائل ایک بار پھر پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

تنقید

مزید دیکھیے

فوجی دفاتر
ماقبل 
ظہیر الاسلام
ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس مابعد 
نوید مختار

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.