ابن جریر طبری

أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبری (ابن جریر طبری) عہد عباسی کے مشہور مفسر مورخ تھے۔ طبری کا تعلق طبرستان -موجودہ ایران کے علاقہ ماژندران- سے ہے۔
طبری کی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم اور مقبول ان کی تفسیر جامع البيان عن تأويل آي القرآن اور تاریخ الرسل و الملوک ہیں۔ اول الذکر تفسیر طبری اور آخر الذکر تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہیں۔ طبری فقہ شافعی کے پیروکار تھے، لیکن بعد میں ان کے آراء اور فتاوی کی بنیاد پر ایک مسلک وجود میں آیا جو ان ہی کی نسبت سے جریری کے نام سے مشہور ہوا۔

ابن جریر طبری
(عربی میں: محمد بن جرير الطبري) 
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 839 [1][2][3][4] 
آمل  
وفات 16 فروری 923 (8384 سال)[1][2][5][3][6] 
بغداد  
مدفن اعظمیہ ، بغداد ، عراق  
رہائش آمل
رے
مصر
بغداد  
شہریت دولت عباسیہ  
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک اجتہاد (مؤسس جریری مذہب)
عملی زندگی
تلمیذ خاص ابوبکر القفال الشاشی  
پیشہ مؤرخ ، فلسفی ، فقیہ ، مصنف ، شاعر  
پیشہ ورانہ زبان عربی [7] 
شعبۂ عمل اسلامی الٰہیات ، تفسیر قرآن  
کارہائے نمایاں تفسیر طبری ، تاریخ الرسل والملوک  
باب اسلام

پیدائش

محمد بن جریر بن یزید الطبری الآملی ابو جعفر کی پیدائش طبرستان کے علاقہ آمل میں خلیفہ عباسی المعتصم باللہ کے عہد خلافت میں 224ھ/ 838ءمیں ہوئی۔ آمل دریائے ھراز کے ساحل پر واقع ہے، بحیرہ خزر سے 20کلومیٹر جنوب میں، کوہِ البرز سے 10کلومیٹر شمال میں اور 180کلومیٹر مشرق میں تہران سے دور ہے۔

نام ونسب

مکمل نام محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب اور کنیت ابو جعفر تھا۔ آمل طبرستان سے تعلق تھا اس لیے آملی اور طبری سے مشہور ہوئے۔ نیز آپ کی علمی استعداد، قابلیت اور اوصاف حمیدہ کی بنا پر الامام، المجتھد، المفسر، المحدث، الحافظ، الفقیہ، المورخ، اللغوی اور المقری کے القاب سے موصوف ہوئے۔ ان سے طبری کے علمی رتبہ کا پتہ چلتا ہے۔

پچپن و تعلیم

آپ کے والد نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ابن جریر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں مبارک ہاتھوں کے درمیان کھڑے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں کنکریاں ہیں جنھیں ابن جریر ایک ایک اٹھا کر پھینکتے جاتے ہیں۔ جب خواب کی تعبیر اس وقت کے علماء کرام سے معلوم کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ابن جریر بڑے ہوکر دین کی خدمت سر انجام دیں گے۔ اور یہ خواب گویا آپ کے تحصیل علم کا ایک سبب بن گیا۔
آپ نے قرآن مجید سات سال کی عمر میں حفظ کر لیا۔ آٹھ سال کے ہوئے تو امامت جیسا اہم فریضہ انجام دینے لگے۔ نو سال کی عمر میں حدیث لکھنا شروع کیا اور جب سولہ سال کی عمر کو پہنچے تو امام احمد بن حنبل کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ آپ نے بغداد کا سفر کیا۔ اس دوران آپ کے اخراجات آپ کے والد ادا کرتے تھے۔ والد محترم نے انتقال کے وقت آپ کے لیے ایک زمین کا ٹکرا چھوڑا تھا جس سے آپ گزر بسر کیا کرتے تھے۔

شیوخ

  • محمد بن حميد الرازي التميمي (241ھ) رے۔
  • ابو ہمام الوليد بن شجاع (243ھ) کوفہ۔
  • عمران بن موسی الليثی البصری ( 240ھ) بصرہ۔
  • احمد بن منيع البغوی ابو جعفر (244ھ)۔
  • محمد بن العلاء الہمدانی ابو کريب (247ھ) کوفہ۔
  • محمد بن عبد الملک بن الشوارب البصری الاموی (244ھ)۔
  • محمد بن بشار العبدی البصری ( 252ھ)۔
  • الامام الحافظ يعقوب بن ابراہيم الدورقی (252ھ)۔
  • بشر بن عبد الاعلی الصنعانی البصری (245ھ)۔
  • ربيع بن سليمان الازدی (250ھ)۔
  • حسن بن محمد الزعفرانی البغدادی الشافعی (260ھ)۔
  • اسماعيل بن يحيی المزنی (264ھ)۔
  • محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم المالکی المورخ (264ھ)۔
  • ہناد بن السری التمیمی (243ھ)۔
  • سلیمان بن عبد الرحمٰن خلاد الطلحی (252ھ)۔
  • یونس بن عبد الاعلیٰ الصدفی (264ھ)۔
  • علی بن سراج المصری ابوالحسن (252ھ)۔
  • احمد بن یحییٰ ثعلب الکوفی (308ھ)۔
  • شیخ عباس بن ولید البیرونی (270ھ)۔

تحصیل علم کی غرض سے اسفار

ابتدا میں طبری نے رے میں علم حاصل کیا پھر کوفہ کا رخ کیا۔ وہاں محمد بن بشار، اسماعیل بن محمد السدی، ہناد بن السری، محمد بن عبدالاعلیٰ الصنعانی، احمد بن منیع، یعقوب بن ابراہیم الدوقی اور محمد بن العلاء الھمدانی سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اس کے بعد شام اور بیروت گئے۔ وہاں عباس بن ولید البیرونی کی صحبت میں قرآن مجید کی مختلف روایات قرات کی مشق کی، پھر مصر روانہ ہوئے اور درمیان میں ایک بار پھر شام جانا ہوا ور پھر مصر واپسی ہوئی۔ وہاں فقہ شافعی کی تحصیل کی۔ آپ کے شیوخ میں اسماعیل بن ربیع بن سلیمان المرادی، اسماعیل بن ابراہیم المزنی اور محمد بن عبدالحکم مشہور ہیں۔ مصر سے پھر آپ بغداد لوٹے اور تاوفات آپ پھر بغداد میں ہی رہے۔

جمہور علما کا ابن جریر طبری پر تاثرات و مدح

صاحب وفیات الاعیان ابن خلکان لکھتے ہیں :

ابو جعفر محمد بن جرير بن خالد الطبري ، وقيل يزيد بن کثير ابن غالب؛ صاحب التفسير الکبير والتاريخ الشهير ، کان اماما في الفنون کثيرة منها التفسير والحديث والفقة والتاريخ وغير ذالک، وله مصنفات مليحة في الفنون عديدة تدل على سعة علمه وغزارته.

ابو جعفر محمد بن جریر خالد الطبری، جنہیں یزید بن کثیر بن غالب بھی کہا جاتا ہے، بڑے مفسر اور مشہور مورخ ہوئے ہیں۔ نیز فقہ، تاریخ وغیرہ مختلف فنون کے بھی امام تھے۔ مختلف فنون پر ان کی بہت سی تصانیف ہیں، جو ان کی وسعت علمی پر دلالت کرتی ہیں۔ مجتھد امام تھے کسی کی تقلید نہیں کی۔

ان کے علاوہ بہت سے اکابرین علما نے ان کی مدح کی ہے جن میں ابن کثیر نے "البدایہ والنھایہ" میں، خطیب بغدادی نے "تاریخ بغداد" میں، امام سیوطی نے "طبقات المفسرین " میں اور امام سبکی نے "طبقات الشافیہ" میں، ان کے علاوہ ابن حجر عسقلانی نے "لسان المیزان" میں، امام ذہبی نے "سیر الاعلام النبلاء " اور "میزان الاعتدال" میں، امام ابن جوزی نے "المنتظم" میں اور بہت سے اکابرین نے آپ کی سوانح اور مدح بیان کیے ہیں ۔

قبر امام طبری– 2017ء

چند مشہور شاگرد

  • ابو شعیب عبد اللہ بن الحسن الحرابی (295) یہ آپ سے عمر میں بڑے تھے۔
  • الامام الحافظ ابو قاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (360)۔
  • الشیخ القاضی ابو بکر بن کامل (350)۔
  • الامام ابو احمد عبد اللہ بن عدی (365)۔
  • القاضی ابو الفرج المعانی بن زکریا النھروانی المعروف "ابن طرار" (390)۔

ابن جریر طبری کی چند تصانیف

  • جامع البیان فی تفسیر القرآن۔ یہ اہل سنت کے ہاں سب سے قدیم تفسیر اور ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
  • تاریخ الطبری (تاریخ الرسل والملوک)۔ تاریخ کے لحاظ سے یہ کتاب بھی اولین ماخذ کا درجہ رکھتی ہے ۔
  • تھذیب الآثار و تفصیل معانی ثابت عن رسول اللہ ﷺ ۔
  • اختلاف الفقہاء ۔
  • ادب النفوس الجیدہ واخلاق النفیسہ۔
  • آداب القضاء۔
  • آداب المناسک ۔
  • التبصیر فی معالم التنزیل۔
  • بسیط القول فی احکام الاسلام۔
  • الذیل المذیل ۔
  • صریح السنہ۔

وفات

آپ نے عباسی خلیفہ المُقتدر باللہ کے عہد خلافت میں اتوار 26 شوال 310ھ / 16 فروری 923 ء کو 86 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پائی۔ جنازے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن کی تعداد اللہ تعالٰیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کئی مہینوں تک نماز جنازہ ادا کی جاتی رہی ۔

حوالہ جات

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11925884j — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. جی این ڈی- آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118620436 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  3. دائرۃ المعارف یونیورسل آن لائن آئی ڈی: https://www.universalis.fr/encyclopedie/al-tabari/ — بنام: ṬABARĪ AL- — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — ناشر: Encyclopædia Britannica Inc.
  4. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/abu-djaafar-muhammad-bin-djarir-at-tabari — بنام: Abu Djaafar Muhammad bin Djarịr at- Tabari
  5. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/al-Tabari — بنام: al-Tabari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  6. بنام: 839?-923 Abū Jaʻfar al-Ṭabarī — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/34519 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11925884j — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ

  1. وفيات الأعيان وأبناء الزمان لابن خلکان۔
  2. طبقات المفسرين للسيوطي۔
  3. لسان الميزان لابن حجر عسقلاني۔
  4. معجم الأدباء إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب لياقوت الحموي۔
  5. مختصر تاريخ دمشق لابن عساکر۔
  6. البداية والنهاية لابن کثير۔
  7. سير أعلام النبلاء للذهبي۔
  8. صريح السنة۔
  9. أبو جعفر محمد بن جریر الطبري، مولف: علي بن عبد العزیز بن علي الشبل (ریاض، سعودی عرب)۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.