یورینیئم

یہ بہت سخت، بھاری اور چاندی جیسی دھات ہے جس کا ایٹمی نمبر 92 ہے۔ یہ 1789 میں Martin Klaproth نامی ایک جرمن کیمیا دان نے دریافت کی تھی۔ اس نے اسے پچ بلنڈی سے الگ کیا تھا۔ یہ پچ بلنڈی چیک ریپبلک کی Joachimsal کی چاندی کی کانوں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس نے اس نئی دھات کا نام نئے دریافت شدہ سیارے یورینس کے نام پر Uran رکھا۔ یہ سیارہ محض آٹھ سال پہلے ہی دریافت ہوا تھا۔ یورینیئم پچ بلنڈی کے علاوہ کارنوٹائٹ اور یرے نائٹ میں بھی ملتا ہے۔

92 neptuniumuranium پروٹیکٹینیم
Nd

U

(Uqb)
عمومی خواص
نام، عدد، علامت U ،92 ،uranium
کیمیائی سلسلےactinides
گروہ, دور, خانہ n/a, 7, f
اظہارsilvery gray metallic;
corrodes to a spalling
black oxide coat in air
جوہری کمیت238.02891 (3)گ / مول
برقیہ ترتیب[Rn] 5f3 6d1 7s2
برقیے فی غلاف2, 8, 18, 32, 21, 9, 2
طبیعیاتی خواص
حالتsolid
کثافت (نزدیک د۔ ک۔)19.1 گ / مک سم
مائع کثافت ن۔پ۔ پر17.3 گ / مک سم
نقطۂ پگھلاؤ1405.3ک
(1132.2س، 2070ف)
نقطۂ ابال4404ک
(4131س، 7468ف)
حرارت ائتلاف9.14کلوجول/مول
حرارت تبخیر417.1کلوجول/مول
حرارت گنجائش(25س) 27.665جول/مول/کیلون
بخاری دباؤ
P / Pa1101001 k10 k100 k
T / K پر232525642859323437274402
جوہری خواص
قلمی ساختorthorhombic
تکسیدی حالتیں3+,4+,5+,6+[1]
(weakly اساس oxide)
برقی منفیت1.38 (پالنگ پیمانہ)
آئنسازی توانائیاں اول: 597.6 کلوجول/مول
دوئم: 1420 کلوجول/مول
نصف قطر175 پیکومیٹر
وانڈروال نصف قطر186 پیکومیٹر
متفرقات
مقناطیسی ترتیبparamagnetic
برقی مزاحمیت(0 س) 0.280 µΩ·m
حر ایصالیت(300ک) 27.5و / م / ک
حرپھیلاؤ(25س) 13.9 µm / م / ک
رفتار آواز (باریک سلاخ)(20 س) 3155 م/سیکنڈ
ینگ معامل208گیگاپاسکل
معامل قص111گیگاپاسکل
معامل حجم100گیگاپاسکل
پوئسون نسبت0.23
سی اے ایس عدد7440-61-1
منتخب ہم جاء
مقالۂ رئیسہ: یورینیئم کے ہم جاء
ہم جاء کثرت نصف حیات تنزل ا تنزل ت (ب ولٹ) تنزل پ
232U syn 68.9 y α & SF 5.414 228Th
233U syn زیپٹو سیکنڈ SF & α 4.909 229Th
234U 0.0058% 245,500 y SF & α 4.859 230Th
235U 0.72% 7.038×108 y SF & α 4.679 231Th
236U syn 2.342×107 y SF & α 4.572 232Th
238U 99.275% 4.468×109 y SF & α 4.270 234Th
حوالہ جات
ہیروشیما پر یورینیئم سے بنے پہلے ایٹم بم 'لٹل بوائے' گرنے کے فورا بعد کا منظر 1945
کچ دھات پچ بلنڈی, جس سے یورینیئم نکالا جاتا ہے

ہمارے نظام شمسی (solar system) میں یورینیئم بظاہر 6.6 ارب سال پہلے ایک سوپر نوا (supernova) کے پھٹنے سے وجود میں آیا تھا۔ اس وقت سورج اور نظام شمسی وجود میں نہیں آئے تھے۔ اگرچہ یہ نظام شمسی میں بہت وافر نہیں ہے پھر بھی اس کی تابکاری زمین کے اندر گرمی پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تابکاری کے باعث ایک ٹن یورینیئم سے اعشاریہ ایک واٹ کی گرمی خود بخود نکلتی ہے جو کرہ ارض کو گرم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی گرمی سے continental plates سرکتی ہیں زلزے آتے ہیں اور کرہ ارض کے بہت اندر convection کرنٹ بہتے ہیں۔ قدرتی یورینیئم میں اتنی تابکاری ہوتی ہے کہ فوٹو گرافی کی فلم کو لگ بھگ ایک گھنٹے میں روشن expose کر دیتی ہے۔

یورینیئم نایاب نہیں

سطح زمین کی قدرتی چٹانوں میں بہتات کے اعتبار سے یورینیئم قدرتی عناصر میں اڑتالیسویں نمبر پر ہے۔ یعنی یہ اتنا بھی نایاب نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بہتات کے اعتبار سے یہ سونے کے مقابلے میں 500 گنا، چاندی سے 40 گنا، پارے سے 25 گنا اور ٹن ( قلعی) سے دگنا زیادہ ملتا ہے۔

یورینیئم جست (زنک)، بورون، اینٹیمنی اور کیڈمیم سے زیادہ وافر ہے۔ سمندر کے ایک ٹن پانی میں تقریباً3 ملی گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر چٹانوں میں ایک ٹن میں دو سے چار گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ یورینیئم دنیا میں اتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ آرسنک، ٹن، ٹنگسٹن اور مولبڈینیم۔ اگر یورینیئم کی قیمت کچھ زیادہ بڑھ جائے تو سمندر کے پانی سے یورینیئم نکالنا سودمند ہو سکتا ہے۔

یہ کثافت اضافی میں تقریباًسونے کے برابر ہے یعنی تقریباً19گرام فی مکعب سینٹی میٹر۔ اس طرح یہ سیسے(رصاص) سے 1.6 گنا زیادہ بھاری ہے اور یہ دنیا کی آٹھویں بھاری ترین شے ہے۔ یہ 1132 ڈگری سنٹی گریڈ پر پگھلتا ہے اور 3818 پر ابلتا ہے۔

Yellowcake جو یورینیئم آکسائڈ ہوتا ہے اور خالص یورینیئم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے

استعمال

صرف ایک ٹن قدرتی یورینیئم سے چار کروڑ کلو واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لیے سولہ ہزار ٹن کوئلہ یا 80 ہزار بیرل تیل جلانا پڑتا ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً442 جوہری بجلی گھر 59 ممالک میں کام کر رہے ہیں اور دنیا میں استعمال ہونے والی بجلی کا تقریباً23‎% ‎ پیدا کر رہے ہیں۔ ان میں سے 104 امریکہ میں ہیں اور امریکی ضرورت کا 20‎%‎ مہیا کر رہے ہیں۔ امریکی بجلی کا دس فیصد حصہ روس کے ان پرانے ایٹم بموں سے حاصل کردہ یورینیئم سے بنتا ہے جنہیں معاہدے کے تحت ناکارہ کر دیا گیا تھا۔ ہر ایٹم بم میں تقریباًپندرہ کلو گرام یورینیئم 235 ہوتا ہے جس کی افزودگی 90‎%‎ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

یورینیئم افزودہ (enrichment) کرنے کے آلے جنہیں سنٹری فیوج کہتے ہیں

سطح زمین اور سمندر میں اتنا قدرتی یورینیئم موجود ہے جو دنیا بھر کی بجلی کی ضرورت کو کئی صدیوں تک پورا کر سکتا ہے۔

جوہری بجلی گھر کی بجلی کو “صاف ستھری” بجلی مانا جاتا ہے کیونکہ ان کے استعمال سے امریکا میں فضا میں کاربن کے اخراج میں 1981 سے 1994 کے دوران 90‎%‎ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس fossil fuel مثلا کوئلہ تیل اور گیس جلانے سے ہر سال 25 بیلین ٹن کاربن ڈائ آکسائڈ پیدا ہوتی ہے جو فضا میں جا کر green house effect کے تحت دنیا کو گرم کرنے global warming کا بڑا سبب بنتی ہے۔

ساری دنیا کے جوہری بجلی گھر مل کر جتنا فضلہ waste پیدا کرتے ہیں وہ ایک ایسی دو منزلہ عمارت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے جو ایک باسکٹ بال کے میدان کے برابر زمین پر بنی ہو۔
جوہری بجلی گھر میں یورینیئم کے ایک ٹکڑے کو تقریباً 18 مہینوں تک بجلی پیدا کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کا کچھ حصہ پلوٹونیم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پلوٹونیم بھی ایٹم بم بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔

1945-2019 جوہری ہتھیاروں کے ذخائر

1967ء میں امریکی جوہری ہتھیاروں کی تعداد 32000 سے کچھ زیادہ تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے جواب میں روس نے 1988ء تک 45000 جوہری ہتھیار بنائے تھے۔ آج ان کی تعداد بہت کم کی جا چکی ہے۔

ملک کا نامجوہری ہتھیاروں کی تعداد[2]
 امریکا6800
 روس7000
 فرانس300
 چین270
 برطانیہ215
 پاکستان140
 بھارت130
 اسرائیل80
 شمالی کوریا60
جوھری مرکزے کے تسلسل سے ٹوٹنے کا ایک خاکہ:؛ یورینیئم 235 کےایک ایٹمی مرکزے سے ایک سست رفتار نیوٹرون کی ٹکر ہونے سے یورینیئم 235 دو چھوٹے ایٹمی مرکزوں میں ٹوٹ جاتا ہے جس سے کثیر توانائ اور کچھ نئے نیوٹرون خارج ہوتے ہیں جو مزید یورینیئم 235 کے ایٹموں کو توڑتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
Pie-graphs showing the relative proportions of uranium-238 (blue) and uranium-235 (red) at different levels of enrichment
قدرتی یورینیئم کا پتھر اور اس سے خارج ہونے والی گاما ریز کا طیف جس میں موجود درجن بھر عمودی لکیریں یورینیئم کی شناخت حتمی بنا دیتی ہیں۔ یہ لکیریں تابکاری کے نتیجے میں بننے والے226Ra, 214Pb, اور 214Bi سے آتی ہیں۔
تجربہ گاہ کا وہ سامان جسکی مدد سے 1938 میں یہ ثابت کیا گیا کہ یورینیم کا ایٹم توڑا جا سکتا ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. The Chemistry of the Actinide and Transactinide Elements: Third Edition by L.R. Morss, N.M. Edelstein, J. Fuger, eds. (Netherlands: Springer, 2006.)
  2. The World’s 15,000 Nuclear Weapons: Who Has What?

    بیرونی روابط

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.