نماز عید

نماز عیدین (عربی: صلاة العید) دو اسلامی تہواروں (عیدین) کے موقع پر ادا کی جانے والی خصوصی نماز ہے۔

عید الفطر کی نماز یکم شوال کو ادا کی جاتی ہے۔

عیدالاضحی کی نماز دس ذوالحجہ کو ادا کی جاتی ہے۔

دونوں مواقع پر یہ خصوصی نمازیں عام طور پر عید گاہ میں ادا کی جاتی ہیں۔

فقہی مذاہب میں

اہل سنت و جماعتق

اہل تشیع

  • فقہ جعفری، اثناء عشری کے مطابق نماز عید امام مہدی کے زمان حضور میں اس نماز کا جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے جبکہ عصرِ عَیبَت کبریٰ میں یہ نماز مستحب ہے۔[5]

احکام و آداب

بعض علمائے کرام نے عیدین کی نماز کو واجب قرار دیا ہے، جن میں علمائے احناف شامل ہیں اور غیر مقلدوں کے عالم ابن تیمیہ نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے، اس قول کے قائلین کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز عیدین پر مواظبت فرمائی ہے اور کبھی بھی ترک نہیں کی یعنی ایک بار بھی تر ک نہیں کی۔

اور انہوں نے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان سے بھی استدلال کیا ہے ”لہذا تو اپنے رب کے لیے نماز ادا کر اور قربانی کر۔“

یعنی نماز عید ادا کر کے بعد میں قربانی کر اور یہاں پر امر کا صیغہ ہے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں حاضر ہونے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کا حکم بھی دیا اور جس عورت کے پاس پردہ کرنے کے لیے اوڑھنی اور برقع نہ ہو وہ اپنی بہن سے عاریتا حاصل کرلے۔

اور بعض علما کہتے ہیں کہ یہ فرض کفایہ ہے حنابلہ کا مذہب یہی ہے اور ایک تیسرا گروہ کہتا ہے کہ نماز عیدین سنت مؤکدہ ہے، ان میں مالکیہ اور شافعیہ شامل ہیں، انہوں نے اس اعرابی والی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں پر پانچ نمازیں ہی فرض کیں ہیں۔

لہذا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز عیدین میں حاضر ہونے کی خصوصی حرص رکھے اور کوشش کرے اور نماز عیدین کے وجوب کا قول قوی معلوم ہوتا ہے اور یہی کافی ہے کہ نماز عیدین میں حاضر ہونے میں جوخیر وبرکت اوراجر عظیم پایا جاتا ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا اور پیروی بھی ہے۔

وجوب اور صحیح ہونے کی شروط اور وقت

اہل سنت

بعض علما جن مین حنفیہ اور حنابلہ شامل ہیں نے نماز عیدین کے وجوب کے وجہ سے اقامت اور جماعت شرط رکھی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس میں نماز جمعہ والی شروط ہی ہیں صرف خطبہ نہیں، لہذا خطبہ میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔

جمہور علما کہتے ہیں کہ نماز عیدین کا وقت دیکھنے کے اعتبار سے سورج ایک نیزہ اونچا ہوجانے پر شروع ہوجاتا ہے اور زوال کے ابتدا تک وقت رہتا ہے۔[6]

اہل تشیع

نماز کا وقت دن طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے اور عید فطر میں مستحب ہے کہ سورج چڑھ آنے کے بعد کچھ کھایا جائے، فطرہ دیا جائے اور بعد میں دوگانہ عید ادا کیا جائے۔[5]

طریقہ

اہل سنت

عمر بن خطاب کا کہنا ہے کہ نماز عید الفطر اورعید الاضحی دو دو رکعت ہیں یہ قصر نہیں بلکہ مکمل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے جس نے بھی افترا باندھا وہ ذلیل و رسوا ہوا۔

اور ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ عید الفطر اور عید الاضحی عیدگاہ جاتے تو سب سے پہلے نماز ادا کرتے۔[7]

نماز عید کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں اور تکبیروں کے بعد قرات ہے۔[8]

عائشہ بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر کے علاوہ سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔

اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور سب طرق کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے۔

اگر مقتدی امام کے ساتھ تکبیروں کے دوران ملے تو وہ امام کے ساتھ ہی تکبیر کہے اور اس کی اقتدا کرے گا اور اس کی چھوٹی ہوئی زائد تکبیروں کی قضا نہیں اس لیے کہ وہ سنت ہیں واجب نہیں۔

اہل تشیع

اہل تشیع کے ذیلی فرقے اثنا عشریہ میں نماز دو رکعت ہے جس کی پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پانچ تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے اور پھر دو سجدے کرے اور اٹھ کھڑا ہو اور دوسری رکعت چار تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیر کے درمیان قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام کہہ کر نماز کو ختم کر دے۔[5]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.