ملک غلام محمد
عہدہ : گورنر جنرل آف پاکستان (15 August 1947 – 19 October 1951)
ملک غلام محمد | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
![]() تفصیل= ملک غلام محمد (1895–1956) | |||||||
تیسرا گورنر جنرل پاکستان | |||||||
مدت منصب 17 اکتوبر 1951 – 7 اگست 1955 | |||||||
بادشاہ | جارج ششم (1951-52) ایلزبتھ دوم (1952-55) | ||||||
وزیر اعظم | خواجہ ناظم الدین (1951–53) محمد علی بوگرہ (1953–55) | ||||||
| |||||||
وزیر خزانہ پاکستان | |||||||
مدت منصب 15 اگست 1947 – 19 اکتوبر 1951 | |||||||
وزیر اعظم | لیاقت علی خان | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 20 اپریل 1895 لاہور | ||||||
وفات | 12 ستمبر 1956 (61 سال) لاہور | ||||||
شہریت | ![]() ![]() | ||||||
جماعت | آل انڈیا مسلم لیگ | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ علی گڑھ | ||||||
پیشہ | سرمایہ کار ، سیاست دان | ||||||
اعزازات | |||||||
کمپینین آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر ![]() | |||||||

اصل نام: ملک غلام محمد
خاندان: ککے زئی ملک
تاریخ وفات: 12 ستمبر1956ء (61 سال) لاہور
جائے پیدائش : موچی دروازہ، لاہور
پیش رو: خواجہ ناظم الدین۔
جانشین: سکندر مرزا
جن وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا: خواجہ ناظم الدین۔ محمد علی بوگرہ۔ چودھری محمد علی۔
تعلیم : گرایجوایٹ :علی گڑھ یونیورسٹی علی گڑھ۔ ہندوستان
مرکزی وزیر خزانہ :برائے پہلی کابینہ پاکستان
امتیازی حیثیت: یوسف صلاح الدین کے دادا جی۔ جو علامہ اقبال کے نواسے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ملک غلام محمد نے پہلے وزیر خزانہ کے طور پر کام کیا۔26 نومبر1949ء میں پاکستان نے بین الاقوامی اسلامی معاشی کانفرنس کا انعقاد کیا اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک صاحب نے اسلامی ممالک کا معاشی بلاک قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔
ملک غلام محمد25 اپریل 1895ء میں موچی دروازہ لاہور کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے جہاں سے انہوں نے بی اے کا متحان پاس کیا۔ انہوں نے انڈین اکاؤنٹ سروس میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا اس کے بعد ریلوے بورڈ میں ذمہ دار عہدہ پر کام کرتے رہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران انہوں نے کنٹرولر آف جنرل سپلائی اینڈ پر چیز کی ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ پہلی گول میز کانفرنس میں آپ نے نواب آف بہاول پور کے نمائندے کے طور پر کام کیا۔ آپ نے نظام حیدرآباد کے مشیر خزانہ کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ تقسیم ہند سے قبل آپ نواب زادہ لیاقت علی خان کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے ان کے تعاون سے نواب زادہ صاحب نے ایک شاندار بجٹ تیار کیا جو غریب کا بجٹ “کہلایا۔
ملک غلام محمد کی خراب صحت کے باعث نواب زادہ لیاقت علی خان نے انہیں ان کے عہدہ سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا مگر ان کی بے وقت شہادت نے ملک صاحب کے مقدر بدل دیے ۔
کابینہ نے فیصلہ کیاکہ خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سونپی جائیں جبکہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ دیاجائے۔ اس طرح ملک غلام محمد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بنے۔ ان کا دورِ حکومت پاکستان میں بیوروکریسی کی سازشوں اور گٹھ جوڑ کا آغاز تھا۔ غلام محمد نے ہی طاقت کے حصول کے لیے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے مشرقی پاکستان کے عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف بداعتمادی کا بیج بویا۔ یہ برطرفی غلام محمد اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ممکن ہو سکی تھی کیونکہ صرف 2 ہفتے قبل ہی خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔
1954ء میں دستور سازاسمبلی نے قانون میں ترمیم کی کوشش کی تاکہ گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کی جائے گورنر جنرل غلام محمد کو جب ان حالات کا علم ہوا تو انہوں نے 24 اکتوبر، 1954ء کو فوری طور پر دستور سازاسمبلی کو برخواست کر دیا ۔ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس برطرفی کوسندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ کی اعلیٰ عدالت نے مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل کا فیصلہ غیر آئینی تھا اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو اس کے نتیجے میں جسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ آیا جس میں گورنر جنرل کا فیصلہ جائز قرار دیا اور اسے نظریہ ضرورت قرار دیا کہ دستور ساز اسمبلی اپنی اہمیت و افادیت کھو چکی ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی سازشوں کا ایک نہ رکنے والا باب کھول دیا۔ جسٹس منیر نے فیصلے میں یہ احمقانہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے مکمل آزادی حاصل نہیں کی ہے اور اب بھی جزوی طور پر تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس رو سے دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے ماتحت ہے اور گورنر جنرل کو اسے برخواست کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس مقدمے میں صرف ایک غیر مسلم جج جسٹس کارنیلیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد مملکت ہے اور دستور ساز اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے جسے گورنر جنرل برطرف نہیں کر سکتا۔ اسی مقدمے میں جسٹس منیر نے بدنامِ زمانہ نظریہ ضرورت بھی متعارف کروایا۔گورنر جنرل کے اس فیصلہ کے خلاف عوام وخواص کو سخت ناپسند کیا گیا اس پر تنقیدکی گئی ۔
بیماری وعلالت
گورنر جنرل غلام محمد بلڈ پریشر،لقوے اور فالج کے مریض تھے ان کی کہی ہوئی باتیں سمجھنا مشکل اور دشوارتھا مگر اس کے باوجود وہ اتنے بڑے عہدے پر رونق افروز تھے ،ان کی علالت کی وجہ سے انہیں دوماہ کی رخصت پر بھیجاگیا ان کی جگہ سکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ ملک صاحب نے 12 ستمبر1956ء کو 61 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی ۔