مریخ

مریخ نظام شمسی میں سورج سے فاصلے کے لحاظ سے چوتھا اور عطارد کے بعد دوسرا سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔ قدیم رومی مذہب میں مریخ کو جنگ کا خدا کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ مریخ کی پرستش کرتے تھے۔ مریخ کی سرخ رنگت کی وجہ سے اسے سرخ سیارہ [1][2] بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سرخ رنگ مریخ کی سطح پر آئرن آکسائڈ کی کثرت کی وجہ سے ہے۔ مریخ کی سرخی مائل رنگت اسے کھلی آنکھ سے نظر آنے والے دوسرے سماوی اجسام سے ممتاز کرتی ہے [3]۔ مریخ ایک زمین مماثل سیارہ ہے جو زمین کی نسبت ہلکا کرہ ہوائی رکھتا ہے۔ اس کے سطح پر زمین کے چاند کی طرح شھاب ثاقب یا کسی دوسرے سماوی جسم کے ٹکرانے سے بننے والے گڑھے موجود ہیں اور اس کی سطح پر زمین کی طرح وادیاں اور صحرا بھی موجود ہیں۔ زمین کی طرح اس کے قطبین پر بھی برف جمی رہتی ہے۔ مریخ کا محوری گردش کا دورانیہ اور موسموں کی گردش زمین جیسی ہے اور زمین کی طرح اس کا محور بھی جھکا ہوا ہے جو موسموں کے تغیر کا باعث بنتا ہے۔ مریخ پر ایک بہت بڑا آتش فشاں پہاڑ ہے جسے کوہ اولیمپس مونس کہتے ہیں یہ پہاڑ نظام شمسی کے سیاروں پر اب تک دریافت ہونے والے پہاڑوں میں سے سب سے بڑا پہاڑ ہے اور اس پر ایک بہت بڑی وادی جسے [[وادئ میرینرس] کہتے ہیں یہ وادی نظام شمسی کے سیاروں پر اب تک دریافت ہونے والی وادیوں میں سب سے بڑی وادی ہے۔ مریخ کے شمالی کرہ میں ایک ہموار طاس (جغرافیہ) ہے جسے بوریالس طاس کہتے ہیں یہ طاس مریخ کے 40 فی صد رقبے کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی سماوی جسم جیسے شھاب ثاقب کے ٹکرانے سے بنا ہے [4][5]۔ مریخ کے دو چاند ہیں جنہیں فوبوس اور دیموس کہتے ہیں یہ چاند چھوٹے اور بے ترتیب شکل کے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچے ہو سکتے ہیں جنہیں مریخ کی کشش ثقل نے پکڑ لیا ہو جس کی وجہ سے یہ مریخ کے گرد گھوم رہے ہیں ۔[6][7] مریخ پر سیاروی سکونت پذیریت پر تحقیقات ہو رہی ہیں جس میں ماضی میں مریخ پر زندگی کے آثار اور موجودہ دور میں مریخ پر حیات کے ممکنات پر تحقیقات شامل ہے۔ مستقبل میں مریخ پر فلکی حیاتیات کے منصوبوں کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے جن میں مریخ 2020 اور ایکسو مارس رور منصوبہ شامل ہے[8][9][10][11]۔ مریخ کی سطح پر کم کرہ ہوائی دباؤ کی وجہ سے مائع پانی کا وجود نہیں ہے[12] البتہ اس کے دونوں قطبین پر برف جمی ہے[13][14]۔ اس کے جنوبی قطب پر برف کی اتنی مقدار ہے کہ اگر یہ برف پگھل کر پانی میں تبدیل ہوجائے تو یہ 11 میٹر (36 فٹ) کی گہرائی تک پورے مریخ کی سطح کو گھیر لے گا۔[15] نومبر 2016 میں ناسا نے مریخ کے اتوپیا پلانیٹیا نامی علاقے میں بڑی مقدار میں زیر زمین برف دریافت کی اس کے پانی کے حجم کا اندازہ جھیل سپیریئر کے پانی کے برابر لگایا گیا ہے۔[16][17][18] مریخ کو زمین سے عام انسانی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔

مریخ، زمین، زہرہ اور عطارد

طبیعی خصوصیات

مریخ کا قطر زمین کے قطر سے تقریباً آدھا ہے اور اس کا سطحی رقبہ زمیں کے کے خشک حصے کے کل رقبے سے تھوڑا سا کم ہے۔ مریخ زمین کی نسبت کم کثیف ہے اور یہ زمین کے حجم کا 15 فیصد، کیمیت کا 11 فی صد اور سطحی کشش ثقل کا 38 فی صد رکھتا ہے۔ اس کا سرخ نارنجی رنگ آئرن آکسائڈ کی وجہ سے ہے دوسرے عام سطحی رنگ جیسے سنہری بھورے اور سبزی مائل رنگ ان میں موجود معدنیات پر انحصار کر تے ہیں۔

اندرونی ساخت

زمین کی طرح مریخ کے اندرونی کثیف دھاتی مرکزہ کے اوپر کم کثیف دھاتی مرکزہ کا خول چڑھا ہوا ہے۔ اس کے اندرونی مرکزہ کا رداس 65 ± 1,794 کلو میٹر (1,115 ± 40 میل) ہے۔ جو بنیادی طور لوہے اور نکل سے بنا ہے اور اس میں 16 سے 17 فی صد گندھک کی آمیزش ہے۔ مریخ کے اس آئرن سلفائڈ مرکزہ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کے مرکزہ میں پائے جانے والے ہلکے عناصر کی نسبت دوگنے بھاری ہیں۔ مریخ کا مرکزہ کے گرد سلیکیٹ کا غلاف ہے جو سیارہ پر مختلف آتش فشانی اور ٹیکٹونک عمل سے بنا ہے لیکن یہ بے حس وحرکت نظر آتا ہے۔ سلیکون اور آکسیجن کے علاوہ مریخ کا قشر میں لوہا، میگنیشیم، الومینیم، کیلشیم اور پوٹاشیم، کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ مریخ کے قشر کی اوسط موٹائی 50 کلومیٹر (32 میل) ہے جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ موٹائی 125 کلومیٹر (78 میل) ہے جبکہ قشر الارض کی موٹائی 40 کلومیٹر (25 میل) ہے۔

سطحی ارضیات

مٹی

مائیات

قطبین

جغرافیہ اور سطحی علاقوں کے نام

کرہ ہوا

آب و ہوا

گردش اور مدار

مریخ کا سورج سے اوسط فاصلہ 230 ملین کلومیٹر (143,000,000 میل) ہے اور اس کی سورج کے گرد مداری گردش کا دورانیہ 687 (زمینی) دنوں کے برابر ہے۔ مریخ کا شمسی دن (سول) زمین کے شمسی دن سے تھوڑا زیادہ ہوتا ہے یعنی مریخ کا ایک شمسی دن (سول) 24 گھنٹے 39 منٹ اور 35.244 سیکنڈ کا ہوتا ہے جبکہ زمین کا ایک شمشی دن 23 گھنٹے 56 منٹ اور 4.0916 سیکنڈ کا ہوتا ہے۔ مریخ کا ایک شمشی سال زمین کے 1.8809 سال کے برابر ہے یعنی مریخ کا ایک سال زمین کے 1 سال 320 دن اور 18.2 گھنٹوں کے برابر ہے۔ مریخ کا اس کے مستوی مدار سے محوری جھکاؤ 25.19 ڈگری ہے۔ جو زمین کے محوری جھکاؤ جیسا ہے جس کی وجہ سے مریخ پر موسم زمین جیسے ہیں لیکن موسم زمین کی نسبت تقریباً دوگنے ہیں کیونکہ ااس کک مداری دورانیہ طویل ہے۔ موجودہ دور میں مریخ کے شمالی قطب کا رخ ستاروں کے جھرمٹ ہنس (دجاجہ) کے ستارے دنب کی طرف ہے۔

تاریخ

مریخ پرانے زمانوں سے سرخ سیارے کے نام سے مشہور ہے۔ کیونکہ اس کی سطح سرخی مائل ہے۔ آج کل امریکہ اور یورپ کے بیشتر ممالک، مریخ کی سطح پر اُتر کر اس کی تحقیق کرنے والے خلائی جہاز بھیج رہیں ہے۔ امسال 2004 میں امریکہ کے دو خلائی جہاز مریخ کی سطح پر اترے ج جبکہ ہندوستان کا ایک خلائی جہاز مریخ کے مدار میں داخل ہوا۔ جنہوں نے وہاں کی تاذہ ترین تصاویر اور اس کی مٹی کی مشاہدات زمین کو بھیجیں۔ اس تحقیق کا مقصد مریخ میں پانی اور زندگی کے آثار ڈھونڈنا ہے۔ کیونکہ اکثر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر کسی زمانے میں زندگی موجود تھی۔ اس تحقیق اب تک یہی نتائج نکلے ہیں مریخ پر کسی زمانے میں پانی تو موجود تھا مگر اس میں زندگی نہ پیدا ہو سکی تھی۔ یورپ کے ممالک نے بھی اپنے تحقیقی خلائی جہاز مریخ پر بھیجے مگر وہ اس کی سطح پر اترنے سے پہلے ہی تباہ ہو گئے۔ امریکا میں اب اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا مریخ میں کسی انسان کو بھیجا جائے یا نہیں؟!

کشش ثقل

مریخ کے 2 چاند ہیں جو باقی چاندوں کی طرح گول نہیں بلکہ بڑے بڑے پتھر ہیں جنہیں (Asteroids) کہا جاتا ہے۔ یہ بڑے پتھر کسی زمانے میں مریخ اور مشتری کے درمیان واقع (Asteroid Belt) سے الگ ہو گئے تھے اور مریخ کی کشش ثقل میں آکر اس کے گرد چکر کاٹنا شروع کر دیا۔

حوالہ جات

  1. Robert Zubrin؛ Richard Wagner (1997)۔ The Case for Mars: The Plan to Settle the Red Planet and Why We Must۔ New York: Touchstone۔ آئی ایس بی این 978-0-684-83550-1۔ او سی ایل سی 489144963۔
  2. Martin J. Rees, ویکی نویس. (اکتوبر 2012)۔ Universe: The Definitive Visual Guide۔ New York: Dorling Kindersley۔ صفحات 160–161۔ آئی ایس بی این 978-0-7566-9841-6۔
  3. John P. Millis۔ "Mars Moon Mystery"۔ About.com۔ Space۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  4. M. Adler؛ W. Owen؛ J. Riedel (جون 2012)۔ Use of MRO Optical Navigation Camera to Prepare for Mars Sample Return۔ Concepts and Approaches for Mars Exploration. June 12–14, 2012. Houston, Texas.۔ Bibcode:2012LPICo1679.4337A۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل (پی‌ڈی‌ایف) سے آرکائیو شدہ۔
  5. Jarell, Elizabeth M (فروری 26, 2015)۔ "Using Curiosity to Search for Life"۔ Mars Daily۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 9, 2015۔
  6. "The Mars Exploration Rover Mission"۔ NASA۔ نومبر 2013۔ صفحہ 20۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل (پی‌ڈی‌ایف) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 9, 2015۔
  7. Wilks, Jeremy (مئی 21, 2015)۔ "Mars mystery: ExoMars mission to finally resolve question of life on red planet"۔ EuroNews۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 9, 2015۔
  8. Howell, Elizabeth (جنوری 5, 2015)۔ "Life on Mars? NASA's next rover aims to find out."۔ The Christian Science Monitor۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 9, 2015۔
  9. "NASA – NASA Rover Finds Clues to Changes in Mars' Atmosphere"۔ NASA۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  10. "Lake of frozen water the size of New Mexico found on Mars – NASA"۔ The Register۔ نومبر 22, 2016۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ نومبر 23, 2016۔
  11. "Mars Ice Deposit Holds as Much Water as Lake Superior"۔ NASA۔ نومبر 22, 2016۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ نومبر 23, 2016۔
  12. Staff (نومبر 22, 2016)۔ "Scalloped Terrain Led to Finding of Buried Ice on Mars"۔ NASA۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ نومبر 23, 2016۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.