محمد حجازی

محمد حجازی (پیدائش:14 اپریل 1900ء – وفات:30 جنوری 1974ء) سیاست دان، ناول نگار، مختصر افسانہ نگار، مترجم، مضمون نگار اور سینیٹر تھے۔ اُنہیں بیسویں صدی عیسوی میں ایرانی سیاست کے اہم عہدوں پر کام کرنے کا موقع ملا۔

محمد حجازی
(فارسی میں: محمد حجازی) 
معلومات شخصیت
پیدائش 14 اپریل 1900ء
تہران  
وفات 30 جنوری 1974ء (عمر: 73 سال)
تہران  
قومیت ایرانی
عملی زندگی
پیشہ ڈراما نگار ، مترجم ، ناول نگار ، مصنف  
پیشہ ورانہ زبان فارسی  

نام

محمد حجازی کا اصل نام مطیع الدولہ محمد الحجازی ہے مگر وہ فارسی ادب میں " محمد حجازی " کے نام سے مشہور ہوئے۔

ولادت

محمد حجازی کی ولادت 24 ذوالحجہ 1278ھ مطابق 14 اپریل1899ء کو دار الحکومت تہران میں ہوئی۔

ابتدائی حالات و والدین

محمد حجازی شہنشاہ فارس نصیر الدین شاہ قاچار کے پوتے تھے۔ محمد حجازی کے والد نصر اللہ مستوفی تھے جو شہزادے تھے اور صوبہ لشکر کے صوبیدار بھی تھے اور بعد ازاں استرآباد کے گورنر مقرر ہوئے۔ محمد حجازی نے ابتدائی تعلیم تہران میں واقع سینٹ لوئیس فرانسیسی مشنری اسکول سے حاصل کی۔ 1919ء میں وہ وزارتِ اِطلاعات و نشریات ٹیلی گراف کی ملازمت اِختیار کی۔ 1921ء میں اُنہیں سرکاری طور اِسی ملازمت کے پیش نظر فرانس میں تعینات کی گیا جہاں اُنہوں نے ٹیلی کمیونیکیشن میں ڈگری حاصل کی۔

سیاسی کردار

1929ء میں محمد حجازی واپس ایران آ گئے، واپسی پر اُنہیں ڈائریکٹر پرسنل ڈیپارٹمنٹ مقرر کیا گیا۔ 1932ء میں اُنہوں مجلہ پست و تیگراف و تیلیفون کی بنیاد رکھی۔ 1934ء کے اواخر میں اُن کا تبادلہ وزارت خزانہ میں ہو گیا۔ 1938ء میں جب سازمان پروارِ افکار کا اِدارہ قائم ہوا تو وہ اِس اِدارے کے چیئرمین مقرر کیے گئے۔ 1943ء کے موسم گرماء میں محمد حجازی کو ادارہ مطبوعات کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اور بعد میں اُنہیں یورپ میں مقیم فارسی باشندوں کی نگرانی کے ادارے کی باگ دوڑ بھی دے دی گئی۔ 1951ء کے موسم بہار میں وہ ایرانی وزیر اعظم کے نائب یعنی ڈپٹی وزیر اعظم مقرر ہوئے۔1953ء کے اِنقلاب کے دوران اُن کو معطل کر دیا گیا۔ 1954ء سے 1963ء تک وہ ایرانی سینیٹ میں بطور سینیٹر کام کرتے رہے۔ تا وفات وہ سینیٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے۔

فارسی ادب میں خدمات

محمد حجازی نے فارسی ادب میں ناول کو بہتر بنانے کی کوشش کی، وہ مغربی انداز کو فارسی ادب میں لائے اور مختصر مضامین کے ذریعہ شہرت پائی۔ اُنہوں نے ناولوں کے ذریعہ سوچ سمجھ کے اندازِ فکر میں بہتری کی خاطر اپنے دور سے آگے بڑھ کر افسانے اور ناول لکھے جو قدیم فارسی ادب کے بالکل مخالف اور ایک نئی چیز تھی۔ اِس سلسلے میں 1953ء میں جب وہ گھر میں نظر بند تھے تو کئی انگریزی کتب کا فارسی میں ترجمہ کیا جس سے اُن کی مترجم ہونے کی حیثیت بھی اُجاگر ہوئی۔ فارسی ادب میں اُن کے شاہکار ناول یہ ہیں:

حماء : 1928ء میں شائع ہوا۔

پری چہر: 1929ء۔

زیبا : 1930ء۔

آئینہ : 1937ء۔

اندیشہ : 1940ء۔

ساگر : 1951ء۔

آہنگ : 1951ء۔

نسیم : 1961ء۔

پروانہ : 1953ء۔

سرشک : 1954ء۔

خانہ بیداری : 1955ء۔

مکالمے

محمد حجازی یہ مکالمے بہت شہرت کے حامل ہیں:

محمدو آقا را وکیل کونید : 1951ء میں لکھا گیا۔

عروس فرنگی: مغرب کی ایک دلہن کی زندگی پر لکھا گیا۔

جنگ : اِس مکالمے کا سن معلوم نہیں ہو سکا۔

مسافراتِ قم : اِس مکالمے کا سن بھی معلوم نہیں ہو سکا۔

وفات

محمد حجازی نے بروز بدھ 6 محرم 1394ھ مطابق 30 جنوری 1974ء کو تہران میں 74 سال کی عمر میں وفات پائی۔ تدفین تہران میں کی گئی۔

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.