بدیع الزماں سعید نورسی

بدیع الزماں سعید نورسی ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز عالم دین اور صوفی تھے۔

تعارف

آپ کا پورا نام بدیع الزماں سعید نورسی تھا۔ آپ صوبہ تیلس کے قصبہ ہیزان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 1873ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کردش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نو برس کی عمر میں تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔ پھر چند سالوں بعد اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس دور کے بڑے بڑے علمی مراکز میں گئے اور تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں آپ کا شمار مشہور علما میں ہونے لگا۔ آپ نے قرآن کریم، حدیث، فقہ، تاریخ، فلسفہ، جغرافیہ اور دیگر علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ آپ کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ قرآن مجید کی لغت اور بہت سی اسلامی کتابیں زبانی یاد تھیں۔ آپ جذبہ جہاد بھی رکھتے تھے۔

زندگی

آپ کی زندگی بڑی سادہ اور منظم تھی۔ آپ مشتبہ امور سے پرہیز کرتے تھے۔ جب بھی نیا مسئلہ درپیش آتا تو قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کرتے۔

گرفتاری

1908ء میں سلطان عبد الحمید کی معزولی کے بعد نام نہاد اسلامی تنظیم جمیعۃ الاتحاد و الترقی سامنے آئی۔ اس تنظیم نے لادینی نظریات اپنا رکھے تھے جس کی آپ نے مخالفت کی اور اس کے مقابلے کے لیے ایک تنظیم الاتحادی المحمدی قائم کی۔ آپ کو 1909ء میں جمیعۃ الاتحاد و الترقی کی مخالفت اور الاتحادی المحمدی کی ترقی کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ آپ کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ بدیع الزماں کا مقدمہ بھی اسی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے آپ کے ساتھیوں کو پھانسی دی تھی۔ اس سے آپ کو ڈرانا مقصود تھا مگر آپ نے عدالت میں بڑے جرات مندانہ انداز میں کہا:

اگر مجھے ہزار بار بھی زندگی ملے اور مجھے اسلامی حقائق میں سے کسی ایک حقیقت کے تحفظ کی خاطر جان کو قربان کرنا پڑے تو مجھے کوئی تردد نہ ہو گا۔ میں ملت اسلامیہ کے سوا کسی اور چیز کو تسلیم نہیں کرتا۔ میں کہتا ہوں کہ میں تو برزخ (جیل) کے سامنے کھڑا اس گاڑی کا انتظار کر رہا ہوں جو مجھے آخر تک لے جائے گی۔ میں نہایت شوق سے سفر آخرت کے لیے تیار ہوں اور میں بھی پھانسی پانے والوں کے ساتھ کا خواہش مند ہوں۔ تم لوگوں نے میرے لیے جلاوطنی کی سزا تجویز کو جو کئی خاص سزا نہیں ہے۔ اگر تمہارے اندر طاقت ہے تو سے بڑی سزا دو۔

قید سے رہائی

نورسی کا بیان اخبارات میں شائع ہوا۔ لوگوں نے پڑھا تو آپ کے ہزاروں متبعین عدالت کے سامنے جمع ہو گئے اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ بالآخر بدیع الزماں کو رہا کر دیا گیا۔ آپ استنبول سے بدان پہنچے اور وہاں تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے۔

انقلاب ترکی کے موقع پر پیغام

1920ء میں ترکی میں انقلاب آیا تو آپ اتاترک کی آزادی کی تقریب میں مدعو کیے گئے۔ آپ تقریب میں شرکت کے لیے انقرہ پہنچے لیکن کمال اتاترک کے غیر اسلامی طور طریقوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہو کر تقریب میں شرکت کیے بغیر واپس آ گئے۔ آپ نے واپس آ کر ایک دس نکاتی تنقیدی پیغام ارسال کیا جس میں آپ نے لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور دین پر ثابت قدم رہنے اور نماز پنگانہ ادا کرنے پر زور دیا اس پیغام پر لوگوں نے اپنی زندگی اسلامی طرز پر گزارنے کا حلف اٹھایا۔ اس پر کمال اتاترک کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔

گوشہ نشینی

بالآخر کمال اتاترک نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔ اس نے آپ پر بہت سی نوازشات کیں۔ آپ ان نوازشات کا مطلب سمجھ گئے اور ان سب کو ٹھکرا کر انقرہ سے وان چلے گئے۔ وہاں جا کر گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہاں آپ نے قرآن کی تفسیر لکھنی شروع کر دی اور نوجوانوں کو اکٹھا کر کے ان کے ذریعے دعوت و تبلیغ جاری رکھی۔ جلد آپ کے رسائل مختلف علاقوں تک پہنچ گئے اور کمال اتاترک کی پریشانیوں کو بڑھانے کا سبب بنے۔ چنانچہ آپ کے آٹھ سال کے لیے بارلا جیل میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں آپ کو سخت پہرے میں رکھا گیا۔ طویل عرصہ تک بحث و مباحثہ کرنے کے بعد بالآخر عدالت کو آپ کو رہا کرنا پڑا۔ آپ جون 1944ء میں قید سے رہا کر دیے گئے۔ اس کے بعد بھی آپ کو کئی مرتبہ گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا لیکن آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

وفات

بدیع الزماں کی زیادہ تر زندگی قید اور جلاوطنی میں گزری۔ ایک مرتبہ آپ قید سے رہا ہوئے ہی تھے کہ فرشتہ اجل پہنچ گیا۔ آپ نے 27 رمضان 1959ء میں 86 برس کی عمر میں وفات پائی۔

حوالہ جات

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.