ابو عیسیٰ محمد ترمذی
ابو عیسیٰ محمد ترمذی ایک مشہور محدث گزرے ہیں جن کا پورا نام ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد ہے۔ آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب، کنیت اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔
امام | |
---|---|
ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد | |
(عربی میں: أبو عيسى محمد الترمذي) | |
![]() عربی خطاطی نام عربی خطاطی نام | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 824 ترمذ |
وفات | 13 رجب 279ھ بمطابق 9 اکتوبر 892ء (68 سال) ترمذ |
شہریت | ![]() |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عارضہ | اندھا پن |
عملی زندگی | |
استاذ | محمد بن اسماعیل بخاری ، مسلم بن حجاج ، ابو داؤد ، اسحاق بن راہویہ |
پیشہ | محدث ، فقیہ |
شعبۂ عمل | علم حدیث ، فقہ |
کارہائے نمایاں | سنن ترمذی ، شمائل ترمذی ، علل الترمذی الکبیر |
![]() | |
نام ونسب اور وطن
کنیت: ابوعیسیٰ، نام: محمد بن عیسی بن سَورة بن موسیٰ بن الضحاک، نسبت: ترمذی، بوغی، سُلمی، 209ھ میں شہر ترمذ میں پیدا ہوئے۔ ترمذ، ایک قدیم شہر ہے جو دریائے جیحوں کے ساحل پر واقع ہے، وہاں سے چند فرسخ پر بوغ نامی گاؤں ہے۔ آپ اصلاً اسی گاؤں کے باشندے تھے اور قبیلہٴ بنوسُلیم سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے سُلمی، ترمذی اور بوغی کہلاتے ہیں۔[1]
سنہ ولادت و کنیت
٢٠٢ھ بعض نے کچھ بعض نے کچھ کہا ہے معلوم ہوتا ہے ولادت کے سن میں اختلاف ہے آپ کے والد ماجد کا نام تمام روایات میں عیسیٰ ہے لہذا آپ کی کنیت ابن عیسیٰ رکھنی چاہیے تھی اس کے بر عکس آپ نے ابوعیسیٰ رکھ لی اور اس پر اعتراضات ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو والدہ کے بطن سے پیدا ہوئے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ذٰلک عیسیٰ ابن مریم) (مریم:٣٤) (قالت انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا قال کذالک اللہ یفعل مایشاء) (آل عمران ٤٧) اور یہ کنیت رکھنا صحیح نہیں لگتا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے یہ کنیت رکھی تو حضرت عمر نے ڈانٹا۔ حضرت مغیرہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا بلکہ ایک روایت ہے کہ خود آپ نے یہ کنیت حضرت مغیرہ کی رکھی اور مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذیمیں کہا ہے کہ کوئی مرفوع متصل صریح حدیث نہی کی نہیں ہے حضرت عمر کی زجر و تنبیہ اثر کا حکم رکھتی ہے اور ایسے بڑے جلیل القدر محدث کو نہی کا علم نہ ہونا بعید من الفہم ہے کہ انہوں نے باب کی حدیث بیان کر کے قال ابوعیسیٰ ہزاروں دفعہ کہا ہے
تعلیم
آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز 220ھ اور 235ھ کے قریب کیا قطعیت کی کوئی روایت نہیں کی ہے۔ آپ کے شیوخ کی تعداد جو کتب میں آئی ہے وہ 221 کے لگ بھگ ہے۔ آج کل کے لوگوں کو ایسی باتیں عجیب لگتی ہیں لیکن اس زمانے میں لوگوں کو حدیث حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہیچمدان عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ بیان کرتے اور لکھتے ہوئے پہلی جماعت سے لیکر دورہ حدیث تک کے اساتذہ کے گننے کا خیال ہوا تو ان کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہے اور اگر ان افراد یا حضرات کو بھی شمار کیا جائے جن سے کچھ نہ کچھ سیکھا تو یہ تعداد چالیس تک جا پہنچتی ہے۔ امام مسلم سے آپ کی ملاقات ہوئی لیکن ان کے حوالے سے ایک روایت اپنی کتاب میں لائے اور ایسے ہی امام ابوداؤد سے ایک روایت لائے
امام بخاری سے استفادہ اور افادہ
سب سے زیادہ آپ نے الامام المحدث حضرت محمد بن اسمعیل بخاری پر علم اور فن میں ایک طویل مدت ان کے ساتھ گزار کر تعلیم حاصل کی اور استفادہ کیا اور اس کے بعد امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی 255ھ اور ابوزرواعہ رازی سے اس کے بعد کتاب العلل، رجال اور تاریخ میں جو اسخراج کیا اس کا اکثر امام بخاری اور دوسرے حضرات نے مطالعہ کیا اور اس کی تحسین کی۔ امام بخاری سے تو اتنے قریب ہوئے اور رہے کہ ان سے بحث و مباحثہ اور مناظرہ کرتے اور اس میں دونوں کو فائدہ ہوا۔ امام بخاری نے اپنے استفادہ کا یوں ذکر کیا کہ امام ترمذی سے فرمایاماانتفعت بک اکثر مماانتفعت بی کہ میں نے جناب سے اتنا نفع حاصل کیا کہ اتنا جناب نے مجھ سے نہیں کیا۔ کیسے اور کتنے عظیم لوگ تھے کہ اپنے شاگردوں کے سامنے ان سے نفع حاصل کرنے کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ تقریر کے لفظ لفظ اور نکات کو سمجنے والے سامنے بیٹھے ہوں تو مقرر کو اتنا شرح صدر ہوتا ہے کہ نکات ایک دم اور اچانک منجانب اللہ ذہن میں آتے ہیں اور اگر غبی یا کند ذہن سامعین ہوں تو مقرر کو آمد نہیں ہوتی بلکہ بڑی مشکل سے آورد سے وقت پورا کرتا ہے۔ امام ترمذی نے جن احادیث کا سماع امام بخاری سے کر کے اپنی جامع ترمذی میں کیا یہاں ان کا ذکر طول کا باعث ہوگا ان کی تعداد ١١٤ہے
غیر معمولی حافظہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطاء فرمایا تھا احادیث کے دو جزو آپ کے پاس سفر میں تھے اثناء سفر میں آپ کو علم ہوا کہ قافلے میں وہ وہ شیخ بھی ہیں کہ جن سے وہ جزو پہنچے ہیں۔ خیال کیا کہ ان کو سنا کر ان کی توثیق کراؤں مستفر پر آئے تو دیکھا تو لکھے ہوئے دونوں جزو غائب تھے ان کی جگہ سفید کاغذ لے کر حاضر ہو گئے اور سنانے لگے شیخ کی نظر پڑ گئی کہ اوراق سادہ ہیں اور کہا کہ اما تستحی منی؟کیا تمہیں مجھ سے شرم نہیں آتی۔ اس پر امام ترمذی نے پورا واقعہ سنایا اور عرض کیا کہ جناب مجھے کچھ اور احادیث سنائیں میں آپ کو مجرد ایک دفعہ سننے پر سنا دوں گا اس پر شیخ نے چالیس احادیث سنائیں سننے کے بعد امام ترمذی نے من وعن ان احادیث کو شیخ کو سنا دیا شیخ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا کہ ما رایت مثلک میں نے آپ جیسا نہیں دیکھا۔ آخر عمر میں آپ رقت قلبی اور خشیت الہی سے گریہ و زاری کرتے ہوئے نابینا ہو گئے۔ ایک دفعہ سفر حج کو گئے تو ایک جگہ جا کر اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے سر نیچا کر لیا۔ احباب کے سوال پر کہ ایسا کیوں کیا تو فرمایا کہ یہاں ایک درخت تھا جس کا ٹہنہ یا شاخیں سر کو لگتی تھیں انہوں نے فرمایا کہ یہاں تو کوئی درخت نہیں اس پر فرمایا کہ ارد گرد سے تحقیق کرو اگر یہاں درخت نہیں تھا تو میں سوء حفظ کا شکار ہو گیا ہوں اور اب مجھے روایت حدیث کو ترک کرنا پڑے گا۔ تحقیق کی تو لوگوں نے کہا کہ درخت تھا لیکن ہم نے اسے مسافروں کی راحت کے لیے اکھیڑ دیا اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا اس زمانے میں محدثین کے حافظے اور دماغ کمپیوٹر یا ریڈار یا آج کل کی زبان میں آٹومیٹک (خبر دار کرنے کا آلہ ) تھے کہ خطرے پر اس کی بتی از خود سرخ ہو جاتی تھی۔
جامع ترمذی کا مقام
بلاشبہ جامع ترمذی صحاح ستہمیں شامل ہے لیکن اس پر بحث ہوتی ہے کہ اس کا درجہ کس نمبر پر ہے کئی حضرات کہتے ہیں کہ صحیحین (بخاری، مسلم) سنن ابی داؤد، سنن نسائی کے بعد ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ صحیحین کے بعد اس کا مقام ہے تبھی تو اس کو جامع کہتے ہیں جو بیک وقت جامع اور سنن ہے۔ جامع ایسی کتاب حدیث کو کہتے ہیں جس میں حدیث کے تمام موضوعات کا لحاظ رکھا گیا ہو اور سنن جو فقہی ترتیب پر ہو ترمذی میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اگر بعض چیزوں یا اعتراضات کو چھوڑ کر دیکھا جائے تو جامع ترمذی کے فوائد صحاح ستہ کتب سے زائد ہیں اسی لیے ہمارے مدارس عربیہ میں اکثر روایت یہ رہی کہ شیخ الحدیث بخاری اور ترمذی دونوں پڑھاتا ہے۔ ایک بڑی بات جو امام ترمذی نے اہتمام سے کی ہے وہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے کے بعد صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پر کن کن حدیث بیان حضرات کا عمل رہا ہے۔ اور حدیث کا مقام صحیح، حسن، مشہور، غریب اور ضعیف وغیرہ بھی بیان کرتے ہیں اور ایک مسئلہ پر باب میں جو حدیث بیان کرتے ہیں اس کا متعلقہ حصہ ہی بیان کرتے ہیں ساری حدیث نہیں بیان کرتے اور مخالف و موافق دونوں طرح کی احادیث بیان کرتے ہیں اور ایک سب سے بڑا اہتمام جس کو کسی محدث نے نہیں چھیڑا وہ یہ کہ فی الباب کہہ کر اس باب میں جتنے صحابہ سے روایت کا ذکر کرتے ہیں اور بعد میں آنے والوں نے فی الباب کی احادیث کو تلاش کر کے جمع کیا ہے۔
شروح ترمذی
جامع ترمذی کی جتنی شرحیں لکھی گئی ہیں اتنی شاید کسی کتاب کی نہیں۔گزشتہ چالیس سال میں تو جس بڑے جامعہ یا دار العلوم میں کسی شیخ نے ترمذی پڑھائی اس کی شرح اکثر و بیشتر نے لکھی اور شائع کی اسی بات سے اس کتاب کے مہتم بالشان ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔
وفات
آپ کا انتقال ستر سال کی عمر میں 13 رجب المرجب شب دو شنبہ 279ھ ترمذ میں ہوا؛ لیکن علامہ سمعانی نے مقامِ رحلت قریہٴ بوغ کو قرار دیا ہے اور سنِ رحلت 275ھ ذکر کیا ہے۔[2] اس کو مدنظر رکھ کر علامہ انور شاہ کاشمیری نے ایک شعر ان کی تعریف کے ساتھ ایک مصرع میں ان کی ولادت وفات کے مشہور قول کو لیا ہے۔ الترمذی محمد ذوزین عطر وفاۃ فی عین امام ترمذی عمدہ خصلت کے عطر تھے عطر سے وفات 279۔ اور عینسے عمر نکالی ہے ۔ع کے عدد 70 ہیں
حوالہ جات
- ماہنامہ دار العلوم ،اكتوبر 2014ء،اشرف عباس قاسمی
- ماہنامہ دار العلوم ،اكتوبر 2014ء،اشرف عباس قاسمی