نجران

نجران سعودی عرب کے صوبہ نجران کا ایک شہر ہے جو یمن کی سرحد کے قریب ہے۔ نجران اگرچہ 4,000 سال قدیم ہے اور اس پر کچھ عرصہ قدیم رومن افواج کا قبضہ بھی رہا مگر اس کو 1965ء میں نئے شہر کا درجہ دیا گیا اور اب وہ سعودی عرب کے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی صرف 25 سال کے عرصہ میں ڈھائی گنا بڑھ کر 2004ء میں ڈھائی لاکھ کے قریب ہو گئی جو 1974ء میں ایک لاکھ سے کچھ کم تھی۔ اس کے زیادہ تر باشندے قحطانی قبیلہ کی شاخ بنویام سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس شہر میں اسلام کی آمد سے پہلے یہودی اور مسیحی آباد تھے مگر 524ء میں یہودیوں نے نجران کے مسیحیوں کا شدید قتل عام کیا تھا جو اسلام سے پہلے کی بات ہے۔ یہودی یوسف ذونواس نے، جو آخری حمیری یہودی بادشاہ تھا، 524ء میں یہاں قبضہ کر کے کہا کہ یا تو تمام مسیحی یہودی بن جائیں یا نجران چھوڑ دیں یا پھر قتل ہو جائیں۔ آج کل اس کی زیادہ آبادی اہل تشیع سے تعلق رکھتی ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود جب نجران کو فتح نہ کر سکا تو اس نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی مذہبی آزادی برقرار رکھنے کی شرط پر سعودی عرب میں شامل ہو جائیں چنانچہ نجران سعودی عرب کا حصہ بن گیا۔ اپریل 2004ء میں وہاں کے اہل تشیع نے سعودی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا آغاز کیا۔[1] کیونکہ سعودی حکومت اپنے معاہدے سے پھر گئی تھی۔[1] اس شہر کے قریب قدیم آبادیوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ جن میں سے ایک الالخدود کے آثار ہیں جو نجران شہر کے جنوب میں واقع ہے۔

نجران
ملک سعودی عرب
صوبہ نجران
تاریخی 4000 قبل مسیح
حکومت
  گورنر مشعل بن عبداللہ
آبادی (2004)
  کل 246,880
  باندازہ نجران مردم شماری ذرائع
پوسٹ کوڈ (5 ہندسہ کوڈ)
ویب سائٹ

نگار خانہ

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.