عدالت عظمیٰ پاکستان

عدالت عظمیٰ پاکستان کے عدا لتی نظام کی سب سے بڑی عدا لت ہے۔ اس کی موجودہ تشکیل۱۹۷۳  کے آئین کے حصہ۷ کے مطابق ہوئی ہے۔

عدا لت عظمٰی

عدالت عظمیٰ ایک چیف جسٹس، ۱۷ججز اور۲ ایڈ ہوک ججز  پر مشتمل ہے جس کی منظوری صدر پاکستان وزاعظم پاکستان کی طرف سے نامزد نمائندوں سے ہوتا ہے۔

تاریخی پس منظر:

۱۸۶۱میں برطانوی راج نے ہائی کورٹ ایکٹ کے مطابق پورے ہندوستان سے عدالت عظمیٰ ختم کر کے تمام صوبوں میں ہائی کورٹس تشکیل کروائیں۔ یہ۱۹۳۵ تک قائم رہیں اور۱۹۳۵ ایکٹ کے بعد وفاقی عدالتیں قائم ہوئیں جن کے اختیارات ہائی کورٹس سے زیادہ تھے۔

تقسیم ہندوستان کے بعد یہ عدالتیں پاکستان میں۱۹۵۶ تک قائم رہیں اور۱۹۵۶  کے آئین کے بعد ملک میں عدا لت عظمٰی قائم کی گئی۔ سب سے پہلے یہ کراچی ہائی کورٹ پھر لاہور ہائی کورٹ اور۱۹۶۴ میں اسلام آباد میں اس کی باقائدہ عمارت قائم ہوئی۔

آئینی تشکیل:

موجودہ عدا لت عظمٰی کی تشکیل ۱۹۷۳  کے حصہ۷ کی شق ۱۷۶ سے ۱۹۱ سے ہوئی ہے۔ ان شقوں میں عدا لت عظمٰی کے اختیارات، نامزدگی، ذمہ داریاں اور اصول وضع کیے گئے ہیں۔

شق ۱۷۶ عدالت عظمیٰ کی تشکیل

شق ۱۷۷ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا تقرر

شق ۱۷۸ عہدے کا حلف

شق ۱۷۹ فارغ الخدمت ہونے کی عمر

شق ۱۸۰ قائم مقام چیف جسٹس

شق ۱۸۱ قائم مقام جج

شق ۱۸۲ ججوں کا وقتی طور پر بغرض خاص تقرر

شق ۱۸۳ عدالت عظمیٰ کا صدر مقام

شق ۱۸۴ عدالت عظمیٰ کا ابتدائی اختیارسماعت

شق ۱۸۵ عدالت عظمیٰ کا ابتدائی اختیارسماعت مرافعہ

شق ۱۸۶ مشاورتی اختیار سماعت

شق ۱۸۶ (الف) عدالت عظمیٰ کا مقدمات منتقل کتنے کا اختیار

شق ۱۸۷ عدالت عظمیٰ کے حکم ناموں کا اجرا اور تعمیل

شق ۱۸۸ عدالت عظمیٰ کا فیصلوں یا احکام پر نظرثانی

شق ۱۸۹ عدالت عظمیٰ کے فیصلے دوسری عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہیں

شق۱۹۰ عدالت عظمیٰ کی معاونت میں عمل

شق۱۹۱ قاعد طریق کار

عدالت عظمیٰ کے ججوں کا تقرر:

آئین واضح طور پر بیان کرتا ہے:

ججوں کے تقرر کے لیے ضروری ہے کہ وہ:

·      پاکستان کا شہری ہواور کم از کم پانچ سال یا مختلف اوقات میں اتنی مدت عدالت عالیہ کا جج رہا ہو۔

·      کم از کم پندرہ سال یا مختلف اوقات میں اتنی مدت عدالت عالیہ کا ایڈوکیٹ رہا ہو۔

اس کے علاوہ ایڈ ہاک ججوں کا تعین چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کرتا ہے۔ جس کی منظوری صدر پاکستان کرتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے ججوں کو آئین کی رو سے ہی برطرف  یا نکالا جا سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کی تشکیل:

۱۹۹۷میں پارلیمنٹ نے قانون بنایا جس کے مطابق عدالت عظمیٰ ۱ چیف جسٹس، ۱۷ عدالت عالیہ کے ججز اور ۲ایڈہاک  ججز جو وفاقی شرعی عدالت سے ہوں پر مشتمل ہوگی۔

عدالت عظمیٰ کے ججز ۶۵ سال کی عمر میں ملازمت سے فارغ ہو جائے گیں یا وقت سے پہلے بھی ملازمت سے فارغ ہو سکتے ہیں یا انھیں برخاست کیا جا سکتا ہے جس کا آئین میں طریقہ کار وضع ہے۔

ذیلی دفاتر:

عدالت عظمیٰ کے پاکستان میں پانچ ذیلی دفاتر ہیں۔

·      اسلام آباد

·      لاہور

·      کراچی

·      کوئٹہ

·      پشاور

عدالت عظمیٰ کے قانونی مشیر اور وکلا:

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے اپنے قانونی مشیر اور وکلا ہو تے ہیں جنکا کام  تحقیق کرنا اوردائردرخواستوں کی نظر ثانی کرنا ہوتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کی عمارت:

جاپانی معمار: کینزو ٹینج Kenzo Tange

عدالت عظمیٰ کی عمارت شارع دستور پر واقع ہے۔ اس کی حفاظت اسلام آبادپولیس کے پاس ہے۔ اس کا کل رقبہ 338،861 مربع فٹ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے احاطہ میں مین بلاک، ججز چیمبر اور انتظامی بلاک موجود ہے جو چیف جسٹس کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ میں لائبریری، کیفیٹیریا، میٹنگ حال،کانفرنس روم،لیکچر اڈیٹوریم بھی موجود ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے احاطہ میں ایک میوزیم بھی ہے جس میں آزادی سے پہلے اور بعد کی عدالتی یادگاریں موجود ہیں۔

عدالت عظمیٰ کا قانونی دائرہ کار:

عدالت عظمیٰ پاکستان کی سب سے بڑی اور آخری عدالت ہے۔ قانون نے عدالت عظمیٰ کو کسی بھی غبن میں سو موٹو نوٹس کا حق دیا ہے خوا وہ سرکاری ہو یا نجی یا کوئی بھی ہو،آئین کے منافی کام ہو عدالت عظمیٰ اس کا نوٹس لے سکتی ہے۔

قابل سماعت درخواستیں ججوں تک پہنچتی ہیں اور اگر ججز چاہیں تو کیس کی سماعت خود کرتے ہیں یا کسی بھی عدالت کو رجوع کر سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ فیصلے ان کی ویب سائٹ پر شائع ہوتے ہیں اور سالانہ ایک رپوٹ بھی چھپتی ہےجسے قانونی ماہرین اپنے حوالوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انجمن برائے عدالت عظمیٰ:

عدالت عظمیٰ کی اپنی انجمن ہے جس کے عہدداران پورے پاکستان سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس انجمن کا کام ملک میں قانون کی پاسداری، وکلاءوججز  کے لیے کام کرنا ہے۔ انجمن کی اپنی ایک کونسل ہوتی ہے جس کے بشمول صدر۲۲ ارکان  ہوتے ہیں۔ انھیں عدالت عظمیٰ کی لائبریری تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔

توہین عدالت:

آئین عدالت عظمیٰ کو اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا عہد دار کے خالف عدالتی حکم نہ ماننے یا دیری کرنے پر توہین عدالت کے ضمر میں سزا سنا سکتی ہے جیسے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے کیس میں ہوا تھا۔

مضامین بسلسلہ
سیاست و حکومت
پاکستان
آئین

باب سیاست

    بیرونی روابط

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.