صوبائی اسمبلی بلوچستان

بلوچستان اسمبلی
صوبائی اسمبلی بلوچستان
قسم
قسم
قیادت
اسپیکر
نائب اسپیکر
سردار بابر موسیٰ خیل، پاکستان تحریک انصاف
از 16 اگست 2018
ملک سکندر خان، متحدہ مجلس عمل
از 16 دسمبر 2018
ساخت
نشستیں 65
سیاسی گروہ

حکومت (41)

حزب اختلاف (22)

غیر منسلک (2)

انتخابات
پچھلے انتخابات
جولائی 2018ء
مقام ملاقات
اسمبلی عمارت، کوئٹہ
ویب سائٹ
www.pabalochistan.gov.pk

تاریخی پس منظر

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 1972 میں ایک صدارتی حکم کے تحت وجود میں آئی۔ اسمبلی کا پہلا اور باقاعدہ اجلاس 2 مئی 1972 کو منعقد ہوا جس میں 21 ارکان (ایک خاتون اور 20 مرد حضرات) نے شرکت کی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک کے اس سفر میں مجموعی طور پر 8 عام انتخابات دیکھے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کے ارکان کی تعداد بتدریج بڑھ کر 65 ہو چکی ہے۔ اگرچہ ارکان کی تبدیلی کی وجہ سے یہ تعداد گھٹتی بڑھتی ہے۔ 1972ءمیں ارکان کی کل تعداد21اور 1977 ءمیں 45 تھی جو 1999 میں گھٹ کر 43 ہو گئی، آخری مردم شماری کی بناءپر اس کی رکنیت میں اضافے کے بعد یہ تعداد 65 ہو گئی جن میں عام نشستوں کی تعداد 51، خواتین کے لیے مختص کردہ 11 نشستیں اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں شامل ہیں۔

نویں اسمبلی 2008ء

نویں اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے اراکین کی تعداد
نمبر شمارجماعتاراکین کی تعداد
1 پاکستان پیپلز پارٹی13
2مسلم لیگ ہم خیال13
3 جمعیت علمائے اسلام10
4آزاد9
5 بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی7
6 پاکستان مسلم لیگ ق6
7 عوامی نیشنل پارٹی3
8 پاکستان مسلم لیگ ن1
9 جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی)1
10 نیشنل پارٹی پارلیمنٹرینز1
کل تعداد64

ایک نشست صوبائی وزیر رستم جمالی کے قتل کے بعد سے خالی ہے۔

آٹھویں اسمبلی 2002ء

اکتوبر2002ء کو منتخب ہونے والی آٹھویں بلوچستان اسمبلی میں ارکان کی تعداد 43 سے بڑھا کر 65 کردی گئی جن مین 51 عام، 11 خواتین اور 3 نشستیں اقلیتوں کے لیے مختص کی گئیں۔ یہ صوبے کی پہلی گریجویٹ اسمبلی رہی یعنی ارکان کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت کی شرط بی۔ اے رکھی گئی۔ مسلم لیگ ق اور متحدہ مجلس عمل نے مخلوط حکومت تشکیل دی۔ قائد ایوان مسلم لیگ ق کے جام محمد یوسف منتخب ہوئے جن کے والد جام غلام قادر بھی ماضی میں بلوچستان ‌کے وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف نیشنل پارٹی کے کچکول علی ایڈووکیٹ نامزد کیے گئے۔ جبکہ اسپیکر جمال شاہ کاکڑ اور ڈپٹی اسپیکر محمد اسلم بھوتانی منتخب ہوئے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبائی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسز نسرین رحمان کھیتران لورالائی سے عام نشست پر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ایوان میں آئیں۔ اکتوبر 2007ء کے آوائل میں پرویز مشرف نے اپنے آپ کو ایسی اسمبلی سے پانچ سال کے لیے منتخب کرایا جو نہ صرف پہلے بھی انہیں صدر منتخب کرچکی تھی بلکہ اپنی مدت بھی نومبر 2007ء میں ختم کرنے والی تھی۔ صدارتی انتخاب کے خلاف چند روز قبل ہی آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی اپیل پر بلوچستان اسمبلی کے پچیس ارکان نے صدارتی انتخاب کے خلاف استعفے دیدیئے ۔مستعفی ہونے والوں میں پانچ سال تک اقتدار کا حصہ رہنے والے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے سولہ، اپوزیشن کی جماعت نیشنل پارٹی کے پانچ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چار اراکین شامل تھے۔ اس اسمبلی کو نومبر 2008ء میں صدر پرویز مشرف نے اپنی مدت پورے ہونے کے بعد تحلیل کر دیا۔ یوں یہ اپنی مدت پوری کرنے والی بلوچستان کی پہلی اسمبلی رہی ۔

فہرست
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1میر جام محمد یوسفوزیراعلیٰدسمبر 2002ءنومبر 2007ء پاکستان مسلم لیگ ق
2جمال شاہ کاکڑاسپیکرنومبر 2002ءاپریل 2008ء جمعیت علمائے اسلام ف
3محمد اسلم بھوتانیڈپٹی اسپیکرنومبر 2002ءنومبر 2007ء پاکستان مسلم لیگ ق
اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے اراکین کی تعداد
نمبر شمارجماعتاراکین کی تعداد
1 پاکستان مسلم لیگ ق21
2 متحدہ مجلس عمل17
3 نیشنل الائنس7
4 نیشنل پارٹی5
5 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی5
6 جمہوری وطن پارٹی4
7 پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز2
8 بلوچستان نیشنل پارٹی2
9دیگر2
کل تعداد65

ساتویں اسمبلی 1997ء

فروری 1997ء تا اکتوبر 1999ء تک رہنے والی بلوچستان اسمبلی کے پہلے قائد ایوان سردار اختر مینگل جبکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر باالترتیب میر عبد الجبار خان اور مولوی نصیب اللہ منتخب ہوئے۔ تقریباً اٹھارہ ماہ تک قائد ایوان رہنے کے بعد سردار اختر مینگل اکثریت کا اعتماد کھو دینے کی بناء پر مستعفی ہوئے۔ اس کے بعد ایوان نے میر جان محمد جمالی کو اپنا نیا قائد ایوان منتخب کیا۔ اس اسمبلی کو 14 اکتوبر 1999ء کو ایمر جنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی غیر معینہ مدت کے لیے تحلیل کر دیا گیا ۔

فہرست وزرائے اعلیٰ ، اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1سردار اختر مینگلوزیراعلیٰ1997-02-221998-02-13
2میر جان محمد جمالیوزیراعلیٰ1998-08-131999-10-14
3میر عبدالجبار خاناسپیکر1997-02-211999-10-14
4مولوی نصیب اللہڈپٹی اسپیکر1997-02-211999-10-14

چھٹی اسمبلی 1993ء

اکتوبر 1993ء تا 1996ء تک رہنے والی چھٹی بلوچستان اسمبلی کے قائد ایوان نواب ذوالفقار خان مگسی منتخب ہوئے جبکہ اسپیکر عبد الوحید بلوچ اور ڈپٹی اسپیکر بشیر مسیح منتخب ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالواسع قائد حزب اختلاف نامزد کیے گئے۔ تقریبآ چھ ماہ تک ڈپٹی اسپیکر رہنے ک ے بعد بشیر مسیح‌وفات پا گئے۔ ان کی جگہ ارجن داس بگٹی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ اس وقت اسمبلی ارکان کی تعداد میں کوئی بیشی نہیں کی گئی۔ تقریباً تین سال رہنے والی اس اسمبلی کو اس وقت کے صدر نے توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کیا ۔

فہرست
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1نواب ذوالفقار علی مگسیوزیراعلیٰ1993-10-201996-11-08
4عبدالوحید بلوچاسپیکر1993-10-191997-02-21
6بشیر مسیحڈپٹی اسپیکر1993-10-191994-04-08
6ارجن داس بگٹیڈپٹی اسپیکر1994-06-021996-11-08

-

پانچویں اسمبلی 1990ء

پانچویں بلوچستان اسمبلی2 نومبر 1990ء تا 19 جولائی 1993ء تک رہی۔ ارکان کی تعداد 45 کی بجائے واپس 43 کردی گئی۔ جس میں 40 عام اور تین اقلیتی ارکان تھے جبکہ مذکورہ اسمبلی میں خواتین کے لیے کوئی نشست مختص نہیں کی گئی۔ ملک سکندر خان ایڈووکیٹ اور عبد المجید بزنجو باالترتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ تقریبآ دو سال تک ڈپٹی اسپیکر رہنے کے بعد میر عبد المجید بزنجو مستعفی ہوکر کابینہ مین شامل ہوئے جس کے بعد عبد القہار خان ودان کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا گیا۔ اڑھائی سال قائد ایوان رہنے کے بعد میر تاج محمد جمالی اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے جس کے بعد نواب ذوالفقارعلی خان ان کی جگہ منتخب ہوئے۔ تقریبآ 29 ماہ تک رہنے والی اس اسمبلی کو اس وقت کے صدر نے توڑ دیا اور نئے عام انتخابات کا اعلان کیا۔

فہرست وزرائے اعلیٰ ، اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1میر تاج محمد جمالیوزیراعلیٰ1990-11-171993-05-22
2نواب ذوالفقار مگسیوزیراعلیٰ1993-05-301993-07-19
3ملک سکندر خاناسپیکر1990-11-171993-10-19
4میر عبدالمجید بزنجواسپیکر1990-11-171992-10-04
5عبدالقہار ودانڈپٹی اسپیکر1992-11-181993-07-19

چوتھی اسمبلی 1988ء

26 نومبر 1988ء تا 7 اگست 1990ء تک رہنے والی چوتھی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر باالترتیب سردار محمد خان باروزئی اور میر عبد المجید بزنجو منتخب ہوئے جبکہ میر ظفر اللہ خان جمالی قائد ایوان منتخب ہوئے۔ میر ظفر اللہ جمالی کی قیادت میں بننے والی یہ اسمبلی تقریباً22 دن چلنے کے بعد اپنی اکثریت ثابت نہ کرنے کی بناء پر ٹوٹ گئی۔ عدالتی حکم پر دوبارہ بحال ہونے والی اس اسمبلی نے نواب محمد اکبر خان بگٹی کی قیادت میں میر محمد اکرم بلوچ اور عنایت اللہ بلوچ کو اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا۔ 15 ماہ تک خدمات انجام دے کر میر محمد اکرم خان بلوچ بحیثیت اسپیکر مستعفی ہوئے جس کے بعد اس عہدہ پر میر ظہور حسین خان کھوسہ منتخب ہوئے۔ تقریبآ 20 ماہ تک رہنے والی اس اسمبلی کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے توڑ کر نئے عام انتخابات کا اعلان کیا۔

فہرست وزرائے اعلیٰ ، اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1ظفر اللہ خان جمالیوزیراعلیٰ1988-12-021988-12-24
2نواب اکبر بگٹیوزیراعلیٰ1989-02-051990-08-07
3محمد خان باروزئیاسپیکر1988-12-021989-02-04
4میر محمد اکرم بلوچاسپیکر1989-02-051990-04-24
5ظہور حسین کھوسہاسپیکر1990-05-311990-11-17
6میر عبدالمجید بزنجوڈپٹی اسپیکر1988-12-021989-02-06
7عنایت اللہ خان بازئیڈپٹی اسپیکر1989-02-131990-08-07

تیسری اسمبلی 1985ء

طویل عرصہ تک مارشل لا کے نفاذ کے بعد غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی تیسری اسمبلی 12 مارچ 1985ء کو وجود میں آئی۔ ارکان کی تعداد 43 سے بڑھا کر 45 کردی گئی جس میں 40 عام، 2 خواتین اور 3 اقلیتی ارکان شامل تھے۔ ملک محمد سرور خان کاکڑ و آغا عبد الظاہر احمد زئی باالترتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ جبکہ جام میر غلام قادر قائد ایوان منتخب ہوئے۔ اسی دوران میں بلوچستان اسمبلی نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل ہوئی۔ غیر جماعتی بنیادوں پر وجود میں آنے والی تیسری بلوچستان اسمبلی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکی، اسمبلی کو اس وقت کے صدر نے 29 مئی 1988ء کو توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کیا۔

فہرست
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑا
1جام غلام قادروزیراعلیٰ1985-04-061988-05-29
2سرور خان کاکڑاسپیکر1985-04-061988-05-29
3عبدالظاہر احمد زئیڈپٹی اسپیکر1985-04-061988-05-29

دوسری اسمبلی 1977ء

10 مارچ 1977ء کو دوسری اسمبلی وجود میں آئی جو 4 جولائی 1977ء تک چلی۔ یہ سب سے کم عرصہ رہنے والی اسمبلی تھی۔ پچھلی اسمبلی ارکان کی نسبت تعداد 21 سے بڑھا کر 43 کردی گئی۔ جس میں 40 عام، 2 خواتین اور ایک اقلیتی ممبر تھے۔ 5 اپریل 1977ء کے اجلاس میں میر جام غلام قادر اور محمد رحیم کاکڑ باالترتیب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے جبکہ سردار محمد خان باروزئی قائد ایوان منتخب ہوئے ۔ا س اسمبلی نے اپنے مختصر دور میں تین تحاریک استحقاق، 5 قراردادیں اور 270 سوالات نمٹائے۔ 4 جولائی 1977ء کو اسمبلیاں توڑ کر ملک میں ‌مارشل لا نافذ کی گئی۔

فہرست
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1محمد خان باروزئیوزیراعلیٰ1977-04-051977-07-04
2جام غلام قادراسپیکر1977-04-051977-07-04
3محمد رحیم کاکڑڈپٹی اسپیکر1977-04-051977-07-04

پہلی اسمبلی 1970ء

صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات17دسمبر1970ءکو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں نیشنل پارٹی عوامی نے اکثریت حاصل کی اور جمعیت علمائے اسلام مفتی گروپ کے ساتھ ملکر صوبے میں اپریل 1972ء کو سردارعطاء اللہ مینگل کی قیادت میں مخلوط حکومت تشکیل دی ۔ اس وقت اسمبلی ارکان کی کل تعداد21تھی۔ جس میں 20مرد اور خواتین کے لیے ایک نشست مخصوص کی کی گئی تھی ۔چونکہ اس وقت اسمبلی کے لیے کوئی باقاعدہ عمارت نہیں تھی اس لیے اسمبلی کا دفتر حال ٹاﺅن ہال (شاہی جرگہ ہال) میں قائم کیا گیا۔ پہلی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس اس وقت کے گورنر جناب غوث بخش بزنجو نے 2 مئی1972ءکو طلب کیا جس کی صدارت عبد الصمد خان اچکزئی نے کی۔ محمد خان باروزئی اور مولوی سید محدم شمس الدین بالترتیب بلا مقابلہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی کے پہلے قائدایوان سردار عطااللہ مینگل تھے جبکہ قائدحزب اختلاف غوث نجش رئیسائی تھے۔ عطاءاللہ مینگل کی سربراہی میں بننے والی یہ مخلوط حکومت کو 13 فروری 1973 کو برطرف کر دیا گیا اور نواب اکبر بگٹی مرحوم کو بزنجو کی جگہ پر صوبے کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ مینگل حکومت پر غیر ملکی اسلحہ کی مدد سے بلوچستان کوآزاد کرانے کی سازش کا الزام تھا۔ یوں مینگل حکومت صرف نو ماہ ہی چلی۔ اس کے بعد تقریباً2ماہ معطل رہنے والی یہ اسمبلی جام میر غلام قادر کی سربراہی میں دوبارہ فرائض انجام دینے لگی۔ مولوی شمس الدین کی شہادت کے بعد 3 جون1974ءکو قادر بخش بلوچ ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ سال1976ءکے اختتام پر جام میر غلام قادر خان کے مستعفی ہونے پر محمد خان باروزئی6دسمبر1976ءکو بلا مقابلہ وزیراعلیٰ منتخب کیے گئے۔ جبکہ اگلے دن جام غلام قادر نے اسپیکر شپ کا حلف لیا۔ اس اسمبلی نے ریکارڈ بزنس کیا جس میں 50بل،18تحاریک استحقاق،75تحاریک التواء،74قراردادیں اور1130سوالات نمٹائے۔

فہرست وزرائے اعلیٰ ، اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز
نمبر شمارنامعہدہقلمدان سنبھالاقلمدان چھوڑاسیاسی جماعت/تبصرہ
1عطاء اللہ مینگلوزیراعلیٰ1972-05-021973-02-13
2جام میر غلام قادروزیراعلیٰ1973-04-271976-12-06
3محمد خان باروزئیوزیراعلیٰ1976-12-061977-04-04
4محمد خان باروزئیاسپیکر1972-05-021976-12-06
5جام میر غلام قادراسپیکر1976-12-061977-04-04
6مولوی محمد شمس الدین شہیدڈپٹی اسپیکر1972-05-031974-03-13
7قادر بخش بلوچڈپٹی اسپیکر1974-06-131976-12-06
فہرست اراکین اسمبلی
نمبر شمارحلقہ وارنامضمنی کی صورت میںجماعت/تبصرہ
1پی بی۔ 1۔ کوئٹہ1سیف اللہ خان پراچہ
2پی بی۔ 2۔ کوئٹہ2نواب خیر بخش خان مری
3پی بی۔ 3۔ کوئٹہ3مولوی محمد حسن شاہ
4پی بی۔ 4۔ کوئٹہ4عبدالصمد خان اچکزئیمحمود خان اچکزئی (2 فروری 1974ء
5پی بی۔ 5۔ سبی1سردار احمد نواز خان بگٹی
6پی بی۔ 6۔ سبی2سردار محمد خان باروزئی
7پی بی۔ 7۔ سبی3میر شاہ نواز
8پی بی۔ 8۔ لورالائی1سردار محمد انور جان
9پی بی۔ 9۔ لورالائی/ژوب9مولوی صالح محمد
10پی بی۔ 10۔ ژوبمولوی سید محمد شمس الدیننواب زادہ تیمور شاہ 27 مئی1974ء
11پی بی۔ 11۔ چاغیمیر گل خان نصیرمیرنصرت اللہ خان 13 اپریل 1975ء
12پی بی۔ 12۔ کچی1نواب غوث بخش رئیسانی
13پی بی۔ 13۔ کچی 2میر چاکر خان ڈومکی
14پی بی۔ 14۔ کچی/قلاتمیر یوسف علی خان
15پی بی۔ 15۔ قلات1آغا عبدلکریم خان
16پی بی۔ 16۔ قلات 2سردار عطاء اللہ مینگل
17پی بی۔ 17۔ مکران 1میر دوست محمدمیر صابر علی 25 مارچ 1974ء
18پی بی۔ 18۔ مکران 2سردار عبدالرحمنقادر بخش 26 مارچ 1974ء
19پی بی۔ 19۔ خارانمیر شیر علی خان
20پی بی۔ 20۔ لسبیلہجام میر غلام قادر خان
21مخصوص نشست خواتینمس فضیلہ عالیانی

اسمبلیوں کی کارکردگی

نمبر شمارمنتخب اسمبلیمسؤدہ قانون/قوانینتحاریک استحقاقتحاریک التواءقراردادیںسوالات
11972–1976391875741,130
21977-1977-3-5270
31985–1988201517731,001
41988–199015212748349
51990–199392858117760
61993–199618267677821
71997–19995106777819
82002–200733931701741,327
9---- -2008-----

اسمبلی کی عمارت

اسمبلی کی موجودہ عمارت کی تعمیر 1986ء میں مکمل ہوئی اور اس کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے 28 اپریل 1987ء کو کیا۔ اس سے قبل اسمبلی کے اجلاس، اسمبلی کی عمارت موجود نہ ہونے کی وجہ سے شاہی جرگ رہال(ٹاؤن ہال) میں منعقد ہوتے رہے۔ اسمبلی کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد 1973ء میں اس وقت کے گورنر محمد اکبر خان بگٹی نے رکھا- ان کی خصوصی ہدایت پر موجودہ عمارت کا نمونہ "گدان" یعنی خیمہ کی طرز پر کیا گیا۔ جو انتہائی انوکھا اور دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ثقافت کا آئینہ دار ہے - اس وسیع و عریض عمارت میں 72 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اس کے علاوہ گورنر اور اسپیکر کے لیے مخصوص گیلری ہے - یہاں 25 نشستیں معزز مہمانوں کے لیے مخصوص ہیں اور 25 نشستیں صوبائی حکومت کے سینئر افسران کی ہیں۔ بالائی گیلری میں خصوصی مہمانوں کے لیے 168 نشستیں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کے لیے 55 نشستیں مخصوص ہیں۔ 12 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس عمارت کے پہلو میں ایک جدید سہولتوں سے آراستہ ہوسٹل ہے اس میں کل 66 کمرے ہیں جو اسمبلی کے ارکان کے لیے مخصوص ہیں - بلوچستان اسمبلی کی انتظامیہ کی نئی عمارت میں لگ بھگ 40 افسران کے لیے علاحدہ علاحدہ دفاتر موجود ہیں۔ اس میں ایک کانفرنس ہال بھی ہے جہاں 61 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ دو کمیٹی روم ہیں جن میں بالترتیب 23 اور 17 افراد بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں۔

مزید دیکھیے

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.