الجامع الصغیر

الجامع الصغیر کا پورا نام الجامع الصغیر فی الفروع ہے یہ امام محمد کی تصنیف جو ظاہر روایت کی6 کتابوں کا حصہ بھی ہے۔ یہ کتاب امام ابو یوسف کی خواہش پر مرتب کی گئی۔ کیونکہ امام ابو یوسف نے امام محمد سے کہا وہ تمام مسائل لکھیں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیے ہیں۔ اس میں تین قسم کے مسائل ہیں۔

  • 1 وہ مسائل کن کی روایت صرف اس کتاب میں ہے
  • 2وہ مسائل جو دوسری کتابوں میں بغیر حوالہ کے مذکور ہیں اس میں صراحتا بتا دیا گیا کہ یہ امام ابو حنیفہ کا قول ہے یا کسی اور امام کا۔
  • 3ایسے مسائل ہیں جو دوسری کتابوں میں مذکور ہیں لیکن اس کتاب میں ان کا ذکر ایسے انداز میں کیا ہے کہ نئے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

اسے ابو عبد اللہ حسن ابن احمد زعفرانی فقیہ حنفیہ نے مرتب کیا[1] مولانا عبد الحیی فرنگی محلی نے " النافع الکبیر فی شرح الجامع الصغیر" کے نام سے اس کتاب کی شرح لکھی ہے اور مقدمہ میں لکھا ہے کہ اس کتاب میں 1532 مسائل آئے ہیں۔

شروحات

اس کی بہت سی شروحات ہو چکی ہیں شارحین میں امام ابو جعفراحمد بن محمد الطحاوی، امام ابو بكراحمد بن علی المعروف الجصاص الرازی، ابوعمرواحمد بن محمد الطبری،امام ابوبكراحمد بن علی المعروف ظہير البلخی۔ امام حسين بن محمدالمعروف نجم،تاج الدين عبد الغفار بن لقمان الكردری۔ امام ظہير الدين احمد بن اسماعيل التمرتاشی الحنفی،امام قوام الدين احمد بن عبد الرشيد البخاری،محمد بن علی المعروف الجرجانی،قاضی مسعود بن حسين اليزدی،امام ابو الازہر الخجندی،ابو القاسم علی بن بندار الرازی الحنفی،حفيدہ أبو سعيدمطہر بن حسن اليزدی، ابو محمد بن العدی المصری، جمال الدين عبد اللہ بن يوسف المعروف ابن ہشام النحوی، امام فخر الاسلام علی بن محمد البزدوی،امام ابونصراحمد بن محمد العتابی البخاری، امام، ابو الليث نصر بن محمدالسمرقندی ہیں۔[2] اردو میں اس کی شرحالنافع الکبیر کے نام سے عبد الحی فرنگی محلینے کی ہے

الجامع الصغیر کی وجہ تصنیف

اس کتاب کی وجہ تصنیف یہ ہے کہ امام ابو یوسف نے امام محمد سے فرمایا کہ تم میرے لیے وہ تمام روایات ایک کتاب میں جمع کردو جو تم نے ابو حنیفہ سے کی ہیں۔ اس حکم کی تعمیل میں امام محمد نے وہ تمام مرویات ایک جگہ جمع فرمادیں اور ان کو امام ابویوسف کے سامنے پیش کیا جن کو انہوں نے بے حد پسند فرمایا یہ کتاب (الجامع الصغیر)1532پندرہ سو بتیس مسائل پر مشتمل ایک مبارک کتاب ہے، بقول علامہ بزدوی :امام ابویوسف اپنے جلالت علم و عظمت کے باوجود اس کتاب کو ہمیشہ سفرو حضر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ علی الرازی فرماتے ہیں : جس شخص نے اس کتاب کو سمجھ لیا وہ ہمارے تمام ساتھیوں میں سب سے زیادہ صاحبِ فہم مانا جاتا ہے۔ اس دور میں کسی شخص کو اس وقت تک قاضی نہیں بنایا جاتا جب تک اسے پرکھ نہ لیا جائے کہ وہ الجامع الصغیر کو سمجھتا ہے اور پڑھتا ہے۔[3]

حوالہ جات

  1. مؤطا امام محمد ،امام محمد بن حسن شیبانی،صفحہ 34،فرید بکسٹال لاہور
  2. كشف الظنون ،مؤلف حاجی خليفہ ناشر: دار إحياء التراث العربی
  3. مجموعۃ رسائل ابن عابدین، الرسالۃ الثانیۃ:شرح عقود رسم المفتی،ج1،ص19
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.