ابو الفضل فیضی
ابو الفضل فیضی شیخ ابو الفیض مبارک کے بیٹے اورمؤرخ ابو الفضل علامی کے بڑے بھائی تھے۔ یہ اکبر کے نورتن میں سے ایک ہے۔
ابو الفضل فیضی | |
---|---|
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 ستمبر 1547 آگرہ [1] |
وفات | 5 اکتوبر 1595 (48 سال) حیفا |
شہریت | ![]() |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، سفارت کار ، خطاط ، سائنس دان ، مترجم ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی |
ولادت
ان کی ولادت سلیم شاہ (سوری) کے عہد میں آگرہ میں 1547ء میں ہوئی۔ ابو الفضل کے والد شیخ مبارک ناگور کے رہنے والے تھے تا ہم ابو الفضل کی پیدائش آگرہ میں ہوئی۔
علمی مقام
انہوں نے عربی زبان میں تعلیم حاصل کی۔ 5برس کی عمر میں ہی وہ لکھنے اور پڑھنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اکبر کے دربار میں شاعر اور ادیب کی حیثیت سے موجود تھے۔ بہت اچھا ہونے کی وجہ سے اکبر نے انہیں ’’ ملکہ الشعراء‘‘ کا خطاب عطا کیا اور انہیں شہزادہ مراد کا اتالیق مقرر کیا۔ تین شہزادوں کے استاد رہے۔ تاریخ، فلسفہ اور طب وادبیات کے ماہرتھے۔ ابو الفضل کے تعلق سے جو منفی بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اکبر کو دین الہیٰ رائج کرنے کے لیے کافی ترغیب دی۔ عقائد کے معاملے میں وہ اکبر کے خیالات پر حاوی تھے۔
اکبر کے رتن
1575میں اکبر کے دربار میں ان کی رسائی ہوئی۔ اکبر نے ان کو علم و فراست کی وجہ سے اپنے نو رتن میں شامل کیا تھا۔ دکن کی کئی جنگوں میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔ وہ مغلیہ فوج کے سپہ سالار بھی رہے۔
تصنیفات
وہ بہت بڑا مصنف ہے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کی تصنیفات 101 تھیں چند مشہور کتابیں یہ ہیں
- سواطع الالہام (بے نقط تفسیر)ہیں۔
- مرکز ادوار
- سلیمان وبلقیس
- اکبر نامہ (اکبر کی سوانح حیات پر مشتمل تحریرجس کی تین جلدیں ہیں)
- بیجاگڑنت
- لیلاوتی اورمہابھارت کا ترجمہ (مہا بھارت کے ایک حصہ کا ترجمہ سنسکرت میں کیا)۔
- دیوان طباشیر الصبح
وفات
ابو الفضل فیضی کی وفات عارضہ دمہ کی وجہ سے آگرہ میں 1595ء بمطابق 1004ھ میں ہوئی ۔[2] بتایا جاتا ہے کہ ابو الفضل کو اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم نے سازش کے ذریعہ قتل کروادیا۔ دکن کی لڑائی سے واپسی کے دوران ویر سنگھ بندیلا نامی ایک راجا کے ذریعہ یہ کام کروایا گیا۔ ابو الفضل ‘مان سنگھ اور دوسرے نو رتنوں کی طرح جہانگیر کی تاجپوشی کے خلاف تھے۔ مدھیہ پردیش کے ترواڑ کے قریب ان کی تدفین کردی گئی اور ان کا سر شہزادہ کو بطور تحفہ بھیجا گیا تھا۔ یہ واقعہ1613کا ہے جبکہ سلیم نے 1602میں ہی مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔[3]
حوالہ جات
- http://www.gktoday.in/faizi/
- اردو دائرہ معارف اسلامہ جلد 15،صفحہ 1088 تا 1089 جامعہ پنجاب لاہور
- http://viqarehind.com/اکبر-کے -نو-9-رتن قسط10/