حکیم نور الدین

حکیم مولانا نور الدین مرزا غلام احمد کے قریبی ساتھی اور جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ تھے۔

حکیم نورالدین
حکیم نورالدین، 1878
حکیم نورالدین، 1878

معلومات شخصیت
پیدائش 08 جنوری 1841
بھیرہ  
وفات مارچ 13، 1914(1914-30-13) (عمر  73 سال)
قادیان  
مدفن قادیان  
شہریت برطانوی ہند  
زوجہ
  • فاطمہ صاحبہ
  • صغری بیگم
والد حافظ غلام رسول[1]
والدہ نور بخت
عملی زندگی
پیشہ طبیب  
دستخط
حکیم نور الدین

خاندانی پس منظر

حکیم مولانا نور الدین سات بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وہ 34 ویں پشت پر مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے آباء اجداد مدینہ سے ہجرت کے بعد بلخ کے علاقہ میں آباد ہوئے۔ چنگیز خان کے وقت میں یہ افغانستان سے پہلے ملتان اور پھر بھیرہ آ گئے۔

بچپن

مولانا حکیم نور الدین کے نزدیک ان کی پہلی معلمہ ان کی والدہ نور بخت تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد حافظ غلام رسول کے حکم پر مزید تعلیم حاصل کی۔ ان کے بڑے بھائی لاہور میں ایک پریس کے مالک تھے۔ بھائی کے کہنے پر انہوں نے لاہور میں منشی محمد قاسم کشمیری سے فارسی پڑھی۔ اس کے علاوہ اپنے بھائی سے عربی کی ابتدائی تعلیم پائی۔ 1857ء میں ایک کتب فروش بھیرہ آیا اور اس نے ان کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا اور کچھ حصہ کا اردو ترجمہ پڑھنے کو دیا۔ بعد ازاں ممبئی کے ایک تاجر کتب نے ان کو تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار نامی اردو کتب پڑھنے کو دیں جو قرآن کی تفاسیر ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور میں طب کے کچھ اسباق بھی حاصل کیے جس کے بعد انہیں 17 سال کی عمر میں راولپنڈی کے نارمل اسکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں سے وہ 21 سال کی عمر میں فارغ ہوئے۔ اسی عمر میں انہیں قابلیت کی بنا پر پنڈ دادنخان کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر لگا دیا گیا۔ راولپنڈی میں قیام کے دوران ہی ان کو مسیحی مشنریوں کے ساتھ ملاقات کا پہلا موقع ملا۔

اعلیٰ تعلیم کا حصول

اگلے 4 تا 5 سال تک حکیم مولانا نور الدین نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے رامپور، مرادآباد، لکھنؤ اور بھوپال کا سفر اختیار کیا۔ انہوں نے سید حسن شاہ سے مشکاۃ المصابیح پڑھی، عزیز اللہ افغانی سے فقہ، مولوی ارشاد حسین مجددی سے فلسفہ، سعد اللہ اریال سے عربی شاعری جبکہ مولوی عبد العلی اور ملا حسن سے منطق کی تعلیم حاصل کی۔ لکھنئو میں انہوں نے مشہور حکیم علی حسین سے طب کی تعلیم حاصل کی اور بھوپال میں طبابت کی۔

مکہ و مدینہ کا سفر

1865ء میں 25 کی عمر میں حکیم مولانا نور الدین نے مکہ و مدینہ کا سفر کیا اور وہاں اسلامی علوم کی اعلیٰ تعلیم پائی۔ حدیث کی تعلیم شیخ حسن خزرجی اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے حاصل کی۔ انہوں نے شاہ عبد الغنی ،جو شاہ والی اللہ محدث دہلوی کے پوتے تھے، کی بیعت بھی کی۔

بھیرہ واپسی

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپسی کے دوران انہوں نے دہلی میں کچھ دن ٹہر کر دیوبند کے مشہور عالم قاسم نانوتوی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1871ء میں حکیم مولانا نور الدین واپس بھیرہ پہنچے۔ جہاں انہوں نے قرآن اور حدیث کی تعلیم دینے کے لیے ایک مدرسہ کھولا۔ اس کے ساتھ ساتھ طبابت بھی شروع کی جس میں خاصی شہرت پائی۔

مہاراجا کشمیر کے شاہی طبیب

1876ء میں ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجا رنبیر سنگھ نے حکیم مولانا نور الدین کو شاہی طبیب مقرر کر دیا۔ کشمیر میں اپنے قیام کے دوران ان کے مختلف مذہبی مکالموں کا ذکر ملتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاراجا رنبیر سنگھ اور اس کے بیٹے امر سنگھ نے ان سے قرآن بھی پڑھا تھا۔ بالآخر 1892ء میں راجا پرتاب سنگھ کے دور میں حکیم مولانا نور الدین کو شاہی طبیب کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ 1895ء میں دوبارہ ملازمت کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ اپنے بطور شاہی طبیب کشمیر میں قیام کے دوران ان کا رابطہ سر سید احمد خان سے رہا جنہوں نے تورات کی ایک اسلامی تفسیر لکھنے کے لیے حکیم مولانا نور الدین کی خدمات بھی حاصل کیں۔

مرزا غلام احمد صاحب سے ملاقات

کشمیر ہی میں قیام کے دوران حکیم نور الدین نے مرزا غلام احمد صاحب کی کتاب براھین احمدیہ دیکھی اور کتاب کے مصنف سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ حکیم صاحب کا بیان ہے کہ وہ عصر کی نماز کے بعد قادیان کی مسجد مبارک پہنچے۔ مرزا صاحب پر نظر پڑتے ہی ان کو خوشی ہوئی اور اس پہلی ملاقات ہی میں انہوں نے مرزا صاحب سے بیعت ہونے کی خواہش کی۔ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ انہیں بیعت لینے کا حکم نہیں دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے مرزا صاحب سے یہ وعدہ لیا کہ جب بھی انہیں بیعت لینے کا اذن ملے گا تو سب سے پہلے ان کو بیعت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس ابتدائی ملاقات کے بعد خط کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ جب 1889 میں مرزا صاحب نے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور 23 مارچ کو لدھیانہ میں بیعت لینے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے حکیم مولنا نور الدین صاحب کو ہی بیعت کرنے کا موقع دیا۔ بعد میں وہ کشمیر سے نقل مکانی کر کے مرزا صاحب کے پاس قادیان ہی آ گئے اور پھر اپنی وفات تک قادیان ہی میں قیام پزیر رہے۔

خلافت

مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کے بعد 27 مئی 1908 کو قادیان میں موجود تمام احمدیوں نے متفقہ طور پر حکیم مولانا نور الدین صاحب کو اپنا پہلا خلیفہ منتخب کر لیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے بعد میں لاہوری جماعت کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی اور خلافت کے نظام سے جدا ہو گئے۔

لندن مشن کا قیام

حکیم مولانا نور الدین صاحب کی خلافت کے دوران ایک اہم واقعہ 1914 میں لندن میں پہلے احمدیہ مشن کا قیام ہے۔ اس مشن نے بعد میں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا اور احمدی خلفاء کی قیام گاہ بنا۔

علمی کام

اسی دور میں جماعت احمدیہ میں متعدد نئے اخبارات کا اجرا ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ تصانیف کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ انگریزی میں قرآن کریم کا ترجمہ تیار کرنے کا کام ہوا۔ قادیان میں کتب خانہ کا قیام عمل میں آیا۔

مرزا صاحب کی وفات کے چند سال بعد ہی نبوت کے اس ماسٹر مائنڈ کی مو اس طرح ہوئی کہ ایک دن آپ گهوڑے پے سوار ہوکر قادیان سے باہر نکلے تو گهڑا حکم الہی سے بے قابو ہو گیا جس سے حکیم صاحب کا پاوں رکاب میں پهنس گیا گهوڑا سرپٹ دهوڑتا رہا ہے اور حضرت حکیم صاحب کی ہڈیاں پٹختا رہا اس کے کچه ماه بعد چارپائی پے آپ کی اس طرح موت ہوئی اس زخمی حالت کے دوران آپ کی زوجہ بهی اپنے آسنا کے ساته فرار ہوجکی تهی

تصانیف

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.