نور محمد ترہ کئی

نور محمد ترہ کئی (15 جولائی 1971ء - 8 اکتوبر 1979ء) سرد جنگ کے دوران میں ایک افغان کمیونسٹ سیاست دان تھے جو 1978ء سے 1979ء تک افغانستان کے صدر رہے۔ وہ کابل کے نواح میں واقعہ ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور کابل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے اپناسیاسی کیریئر بطور صحافی شروع کیا۔ وہ افغانستان کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDPA) کے بانی ارکان میں شامل تھے اور پہلی کانگریس میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1965ء کے افغان پارلیمانی انتخابات میں ایک امیدوار کے طور پر حصہ لیا لیکن نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 1966ء میں انہوں نے پارٹی کے اخبار خلق کا پہلا شمارہ شائع کیا، لیکن حکومت کی جانب سے جلد ہی اسے بند کر دیا گیا۔

نور محمد ترہ کئی
(پشتو میں: نور محمد ترکۍ) 
مناصب
صدر افغانستان  
دفتر میں
30 اپریل 1978  – 14 ستمبر 1979 
عبد القادر دگروال  
حفیظ اللہ امین  
معلومات شخصیت
پیدائش 15 جولا‎ئی 1917 [1][2] 
کابل  
وفات 8 اکتوبر 1979 (62 سال) 
کابل  
وجۂ وفات قتل  
شہریت افغانستان  
جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان  
عملی زندگی
مادر علمی ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی  
پیشہ سیاست دان ، شاعر ، مصنف ، صحافی  
پیشہ ورانہ زبان پشتو  

انہوں نے PDPA کے خلق ونگ کی قیادت کی، 1978 ء میں نور محمد تر ہ کئی نے حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کے ساتھ انقلاب کی قیادت کی اورجمہوری جمہوریہ افغانستان کی بنیاد رکھی۔جس کے بعد وہ پہلے ملک کے صدر منتخب ہوئے۔نور محمد تر ہ کئی کی مدت صدارت مختصر اور تنازعات کا شکار رہی ۔ ان کی دور ااقتدار میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم رہی۔ یکم جنوری 1979 کو انہوں نے ملک میں زرعی اصلاحات کا آغاز کیا جو ملک میں مقبول نہ ہوئیں۔ ریاستی پریس نے انہوں عظیم لیڈر اور عظیم استاد کے طور پر پیش کیا[3]۔ حفیظ اللہ امین کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ رہے ، جس کی وجہ سے بعد میں 14 ستمبر 1979 کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا[4]۔ان کی وفات کے بعد دسمبر 1979ء میں سویت یونین نے افغانستان میں براہ راست مداخلت کی۔

سیاست کے علاوہ 1940 کی وہائی میں انہوں نے سوشلزم کے نظریات پر کچھ ناول اور کہانیاں بھی لکھیں[5]۔

ہلاکت

انقلابِ ثور کو اپنے آغاز سے ہی اندرونی و بیرونی سازشوں کا سامنا تھا۔8 اکتوبر 1979کو اور سویت یونین کی شہ پر پارٹی میں موجود کچھ عناصرکی سازش  کے نتیجے کامریڈ نور محمد ترہ کئی قتل کر دیے گئے۔ نور محمد ترہ کئی کی ہلاکت کے بعد اس کی بیوی اور بھائی سمیت وسیع پیمانے پر اس کے خاندان کے 28 مرد او ر خواتین کو  جیل میں ڈال دیا گیا[6]۔ ان کی ہلاکت کے بعد حفیظ اللہ امین نے اقتدار پر قبضہ کر لیا مگرمحض تین ماہ ہی کابل میں اپنے انجام سے نہ بچ سکا اس کے بعد جب ببرک کارمل اقتدار میں آئے تو ان سب کو رہا کر دیا گیا۔

کابل نیو  ٹائمزکے 2 جنوری 1980ء ایڈیشن میں اس وقت کی وزیر تعلیم وزیر اناحیتا شرحبزاد نے ترہ کئی کو "ملک کے شہید بیٹے" کا خطاب دیتے ہوئے حفیظ اللہ امین کو آمر، پاگل اور امریکی سامراج کا جاسوس کہا[7]۔

حوالہ جات

  1. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Nur-Mohammad-Taraki — بنام: Nur Mohammad Taraki — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  2. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000015295 — بنام: Nur Mohammed Taraki — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. Before Taliban: Genealogies of the Afghan Jihad by David B. Edwards, 2002.
  4. Malik Hafeez۔ Soviet-Pakistan Relations and Post-Soviet Dynamics, 1947–92۔ صفحہ 263۔ آئی ایس بی این 978-1-349-10573-1۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  5. Shaista Wahab & Barry Youngerman, A Brief History of Afghanistan، Infobase Publishing (2007)، p. 137
  6. My Three Lives on Earth: The Life Story of an Afghan American by Tawab Assifi
  7. "VOL. XVII NO. 2"۔ Kabul New Times۔ 2 جنوری 1980۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.