عبد الماجد دریا آبادی

عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریا آباد، ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ بہت سے تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علاوہ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنتے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں۔ آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ آپ نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر آپ کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے۔

عبد الماجد دریا آبادی
معلومات شخصیت
پیدائش 16 مارچ 1892  
بارہ بنکی ضلع ، اتر پردیش ، برطانوی ہند  
وفات 6 جنوری 1977 (85 سال) 
بارہ بنکی ضلع  
شہریت بھارت
برطانوی ہند  
عملی زندگی
پیشہ مصنف  
باب اسلام

شبلی نعمانی سے ملاقات

انہوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔

احباب

اُن کے مولانا ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، محمد علی جوہر، اکبر الہ بادی اور دوسرے بہت سے عظیم مصنیفین کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔

کتابیں

انہوں نے قرآن، سیرت، سفر ناموں، فلسفہ اور نفسیات پر 50 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات، بہت سے ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ انہوں نے ریڈیو گفتگو کی میزبانی بھی کی اور بہت سی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کی کتابوں کی کچھ تفصیل ذیل میں ہے۔

  1. فلسفہ اجتماع یعنی جماعت کی دماغی زندگی کی تمثیل و تشریح
  2. فلسفہ جذبات
  3. فی ما فی ملفوظات محمد جلال الدین رومی و تبصرہ
  4. مردوں کی سیمائی (Mardaun Ki Seemaee)
  5. مضامین عبد الماجد دریابادی
  6. محمد علی کی ذاتی ڈائری
  7. تفسیر قرآن، تفسیر ماجدی، جلد 1، 2، 3 (چوتھی جلد بھی آچکی ہے، لیکن مولانا کے قلم سے نہیں ہے۔)
  8. وفیات ماجدی یا ناشری مرثیائی
  9. تفسیر القرآن، انگریزی
  10. بشریت انبیا علیہ السلام
  11. حکیم الامت
  12. آپ بیتی

http://www.elmedeen.com/author-502-مولانا-عبد-الماجد-دریا-آبادی-صاحب

بعد از مرگ

عبد القوى دسنوى نے دریابادی پر لکھنؤ میں ایک اردو جریدے نیا دور میں ایک خصوصی نمبر شائع کیا۔ انہوں نے دریا بادی پر ایک خصوصی تبصرہ بھی معاصرین میں کیا جو ساحر بمبے والیوم 51 نمبر 7 سن 1980 میں شائع ہوا۔[1]

سنہ 2008ء میں مدراس یونیورسٹی کے ”شعبہ عربی، فارسی و اردو“ کے ایک محقق محمد شمس عالم نے دریابادی پر ”مولانا عبد الماجد دریابادی کی علمی و ادبی خدمت“ نامی ریسرچ پیپر لکھا۔[2]

حوالہ جات

  1. "Abdul Qavi Desnavi Biography"۔ Bihar Urdu Youth Forum, Bihar۔ مورخہ 16 اپریل 2013 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2013۔ |archiveurl= اور |archive-url= ایک سے زائد مرتبہ درج ہے (معاونت); |archivedate= اور |archive-date= ایک سے زائد مرتبہ درج ہے (معاونت)
  2. "University of Madras: Department of Arabic, Persian and Urdu: Research Scholars"۔ University of Madras۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2013۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.