صہبا اختر

صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔

صہبا اختر
صہبا اختر

معلومات شخصیت
پیدائش 23 ستمبر 1930  
جموں ، ریاست جموں و کشمیر  
وفات 19 فروری 1996 (66 سال) 
کراچی ، پاکستان  
وجۂ وفات دورۂ قلب  
مدفن گلشن اقبال  
طرز وفات طبعی موت  
شہریت پاکستان  
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ علی گڑھ  
تعلیمی اسناد بی اے  
پیشہ شاعر ، نغمہ نگار  
پیشہ ورانہ زبان اردو  
شعبۂ عمل غزل ، نظم ، مرثیہ ، نعت ، قطعہ ، گیت  
اعزازات
باب ادب

حالات زندگی

صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1][2] ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔[2] پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔[3]

ادبی خدمات

صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی[2]۔ صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے عمدہ شاعر تھے، ریڈیو پاکستان کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔ صہبا اختر نے فلم کے لیے بھی مشہور گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا بہت مشہور ہوئے۔[4]ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔[2]

نمونہ کلام

غزل

عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا! بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا
وہ خرابا ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا
کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا
ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے کے بعد اک اُجالا مُدّتوں آنکھوں میں لہرایا رہا
تلخیوں نے زِیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر عمر بھر صہبا تری آنکھوں کا بہکایا رہا

شعر

یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے

شعر

ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے

شعر

صہبا بہت سیاہ سہی یہ شب ملال گونجے گی پھر سحر کی اذان جاگتے رہو

شعر

مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے تو بھی جاگے، تو بھی تڑپے، تو بھی نیر بہائے
بادل گرجے بجلی چمکی، تڑپ تڑپ رہ جائے پت جھڑ آئے چھائے اداسی، من میں آگ لگائے

اعزازات

حکومت پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[2] صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال کراچی میں سڑک کا نام ان کے نام منسوب کی گئی ہے۔

تصانیف

وفات

صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کر گئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1][2][2]

حوالہ جات

  1. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 429
  2. عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 776
  3. صہبا اختر تعارف، ریختہ ویب اردو، بھارت
  4. صہبا اختر شاعری کا سمندر تھے، یونس ہمدم، ایکسپریس نیوز، ہفتہ 5 ستمبر 2015ء
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.