بلیک باڈی ریڈی ایشن

طبیعیات میں سیاہ جسم (black body) سے مراد کوئی بھی ایسی چیز ہوتی ہے جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر طرح کی روشنی جذب کر لے۔ چونکہ اس سے کوئی روشنی منعکس (reflect) نہیں ہوتی اس لیے ایسی چیز ٹھنڈی حالت میں کالی نظر آتی ہے۔ ہر طرح کی روشنی سے مراد نظر آنے والی روشنی بھی ہے اور نظر نہ آنے والی روشنی بھی (جیسے زیرسرخ (infra red) یا بالائے بنفشی (ultraviolet) شعاعیں)۔ ہر بلیک باڈی (کالی چیز) سے نکلنے والی شعاعوں کے تعدّد (frequency) اور شدّت (intensity) کا انحصار اُس جسم کے صرف درجۂ حرارت پر ہوتا ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارات بڑھایا جاتا ہے اُس چیز سے نکلنے والی روشنی تیز بھی ہوتی جاتی ہے اور اس کی فریکوئنسی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح اُس کا رنگ کالے سے سرخ، پھر نارنجی، پھر پیلا، پھر سفید اور اس کے بعد نیلگوں ہو جاتا ہے۔[1] اس اصول کے تحت کسی بھی گرم جسم سے آتی ہوئی روشنی سے اُس گرم جسم کا درجہ حرارت بڑی درست حد تک معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سائنس دان دُور دراز کے ستاروں کا بھی درجہ حرارت بتا سکتے ہیں۔

درجہ حرارت اور رنگ کا تعلق

Incandescence
آتش فشاں سے نکلتے ہوئے اس لاوے کا درجہ حرارت اس کے رنگ کو دیکھ کر بتایا جا سکتا ہے۔ اس لاوے کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ہزار سے 1200 درجہ سینٹی گریڈ کے درمیان ہے۔

جب کسی نہ جلنے والی دھات مثلاً لوہے کو گرم کرتے ہیں تو لگ بھگ 500 ڈگری سینٹی گریڈ پر اس میں سے ہلکی سی سرخ روشنی نکلنے لگتی ہے۔ لیکن اس وقت اس میں سے نکلنے والی 99 فیصد روشنی نظر نہ آنے والی انفرا ریڈ پر مشتمل ہوتی ہے۔ جیسے جیسے دھات مزید گرم ہوتی ہے اس میں سے نکلنے والی روشنی کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور سرخی بھی کم ہو کر سفیدی میں بدلتی چلی جاتی ہے۔

ٹمپریچر اور خارج ہونے والی توانائی کی مقدار

پستول نما انفرا ریڈ تھرمومیٹر۔ یہ بلیک باڈی ریڈی ایشن کے اصول پر کام کرتا ہے اور دور سے ٹمپریچر ناپ لیتا ہے۔
ایک شخص انفرا ریڈ تھرمو میٹر کی مدد سے ایر کنڈشنر کی ہوا کا ٹمپریچر چیک کر رہا ہے۔
600 ڈگری سینٹی گریڈ پر لوہا واضح سرخ ہو جاتا ہے۔ 900 ڈگری پر اسکا رنگ نارنجی ہو جاتا ہے۔ اس تصویر میں لوہے کا ٹمپریچر لگ بھگ 1200 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ لوہا 1535 ڈگری پر پگھل جاتا ہے۔

پلانک کا کوانٹم نظریہ

جرمنی کا طبیعیات دان میکس پلانک وہ پہلا آدمی تھا جس نے 1900ء میں گرم اشیاء سے خارج ہونے والی شعاعوں کی وضاحت کرنے کا بالکل درست فارمولا دریافت کیا۔ اس نے پہلی دفعہ یہ معلوم کیا کہ سیاہ جسم سے نکلنے والے فوٹون کچھ مخصوص توانائی کے ہی حامل ہو سکتے ہیں اور ان مخصوص توانائیوں کے درمیان کسی توانائی کے حامل نہیں ہو سکتے۔[2] (اس وقت فوٹون کی بجائے کوانٹم کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ ) اس طرح پلانک کا مستقل (Planck's constant) ایجاد ہوا جسے h سے ظاہر کرتے ہیں۔ پلانک کے نظریات سے ہی جدید طبیعیات اور کوانٹم فزکس کی بنیاد پڑی۔ 1918ء میں پلانک کو نوبل انعام ملا۔
آئن اسٹائن نے اپنے ضیا برقی اثر کے نظرئیے میں پلانک کے تصوارات کو ہی استعمال کیا جس پر اسے 1921 میں نوبل انعام ملا۔

عام ٹنگسٹن بلب کا ٹمپریچر 3000 ڈگری کیلون تک ہوتا ہےاس لیے وہ روشنی سے زیادہ گرمی (انفرا ریڈ) خارج کرتا ہے۔ سورج کا ٹمپریچر 6000 ڈگری کیلون ہوتا ہے اس لیے اسکی روشنی اتنی تیز ہوتی ہے۔ 6000 ڈگری سے زیادہ ٹمپریچر پر روشنی کا اخراج پھر کم ہو جاتا ہے کیونکہ اب الٹرا وائیلٹ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

مزید دیکھیے

حوالے

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.