زبیر علی زئی

حافظ ابو الطاہر زبیر علی زئی عالمِ اسلام کے ایک نامور محدث تھے اور چودھویں صدی میں علم حدیث اور جرح وتعدیل کے امام تھے۔

زبیر علی زئی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 25 جون 1957  
حضرو  
وفات 10 نومبر 2013 (56 سال) 
راولپنڈی  
شہریت پاکستان  
مذہب اسلام
فرقہ سنی
فقہی مسلک اجتہاد
تعداد اولاد 7 [1] 
عملی زندگی
پیشہ محدث  
پیشہ ورانہ زبان عربی ، اردو  
باب اسلام

نسب نامہ

زبیر بن مجدد خان بن دوست محمد خان بن جہانگیر خان علی زئی۔[2]

تعلیم و تربیت

شیخ زبیر علی زئی نے 3 سے 4 ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ نے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی وفاق المدارس السلفیہ سے شہادۃ العالمیہ کی سند بھی حاصل کی۔ نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔ آپ اپنی مادری زبان ہند کو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پردسترس رکھتے تھے۔ جن میں عربی، اردو، پشتو، انگریزی، یونانی، فارسی اور پنجابی زبان شامل ہیں۔

آپ کو علم الرجال سے بڑی دلچسبی تھی چنانچہ ایک پر اپنے بارے میں خود لکھا:

”راقم الحروف کو علم اسمائے الرجال سے بڑا لگاؤ ہے۔“

اساتذہ

حافظ زبیر علی زئی نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:

محب اللہ شاہ راشدی

وہ اپنے استاد کے بارے میں لکھتے ہیں ”استاد محترم مولانا ابو محب اللہ شاہ الراشدی سے میری پہلی ملاقات ان کی لائبریری مکتبہ راشدیہ میں ہوئی تھی میرے ساتھ کچھ اور بھی طالب علم تھے۔

اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں، ”اگر مجھے رکن و مقام (ابراہیم) کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا میں شیخ محب اللہ شاہ راشدی سے زیادہ نیک، عابد، زاہد افضل اور شیخ بدیع الدین سے زیادہ عالم و فقہی انسان کوئی نہیں دیکھا۔“[3]

بدیع الدین شاہ راشدی

شاہ صاحب سے تعلق تلمذ کا ذکر کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی نے لکھا کہ ”راقم الحروف کو بھی ان سے شرف تلمذ حاصل ہے۔“

اسی طرح ایک مقام پر شیخ محب اللہ شاہ راشدی اور شیخ بدیع الدین راشدی کے حوالہ سے کچھ یوں لکھا: ”آپ انتہائی خشوع وخضوع اور سکون و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے اس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ ہمیں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے میں انتہائی سکون و اطمینان حاصل ہوتا تھا، گویا یہ سمجھ لیں کے آپ کی ہر نماز آخری نماز ہوتی تھی، یہی سکون و اطمینان ہیں شیخ العرب والعجم مولانا بدیع الدین شاہ راشدی کے پیچھے نماز پڑھنے میں حاصل ہوتا تھا۔”[4]

اسی طرح ایک جگہ کچھ یوں لکھا ”راقم الحروف سے آپ کا رویہ شفقت سے بھرپور تھا ایک دفعہ آپ ایک پروگرام کے سلسلہ میں راولپنڈی تشریف لائے تو کافی دیر تک مجھے سینے سے لگائے رکھا۔[5]

اللہ دتہ سوہدروی

زبیر علی زئی نے ان کے بارء میں لکھا ”جن شیوخ سے میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ان میں حاجی اللہ دتہ صاحب سرفہرست ہیں۔“[6]

فیض الرحمٰن الثوری

حافظ زبیر علی زئی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”راقم الحروف کو آپ سے استفادہ کا موقع استاد محترم شیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی کے مکتبہ راشدیہ نیو سعید آباد میں ملا۔ آپ نے سند حدیث اور اس کی اجازت اپنے دستخط کے ساتھ 13 صفر 1408ھ کو مرحمت فرمائی آپ مولانا اور وہ سید نذیر حسین دہلوی سے روایت کرتے ہیں۔”[7]

عطاء اللہ حنیف بھوجیانی

آپ اہل حدیث کے علما میں سے ایک نامور عالم دین تھے آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں ایک سنن نسائی کی عربی شرح التعلیقات السلفیہ ہے۔

حافظ عبد المنان نورپوری

آپ عالم باعمل شخصیت تھے علم بحرزفار تھے آپ کی کتب میں ارشاد القاری الی نقد فیض الباری مراۃ البخاری مقالات نورپوری اور احکام ومسائل جیسی بلند پایہ کتب ہیں۔

حافظ عبد السلام بھٹوی

آپ جماعت کے جید علما میں سے ہیں آپ کی مختلف کتب میں سے ایک معروف کتاب تفسیر دعوۃ القرآن ہے۔

عبد الحمید ازہر

آپ کی سکونت راولپنڈی شہر میں تھی۔ حافظ زبیر علی زئی ان کو بھی اپنا استاد مانتے تھے اور وقتًا فوقتًا ان سے محتلف موضوعات میں رہنمائی کے لیے رجوع فرماتے رہتے تھے۔

تلامذہ

پورے ملک سے کثیر طلبہ نے آپ سے استفادہ اور کسب فیض کیا ہے۔ چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. ندیم ظہیر
  2. حافظ شیر محمد
  3. صدیق رضا
  4. غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری
  5. انجینئر محمد علی مرزا

تصانیف

شیخ کی متعدد علمی و تحقیقی تصانیف ہیں جن میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔

  • اثبات عذاب القبر للبيهقی (تحقیق وتخریج)
  • نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داود (اس میں فقہی فوائد کے ساتھ ساتھ تحقیق وتخریج بھی ہے)
  • نمازمیں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام
  • نور العینین فی اثبات رفع الیدین (یہ کتاب انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے بڑی تعداد نے اس سنت متواترہ کو اپنی نماز کی زینت بنا لیا ہے۔)
  • آل دیوبند کے تین سو 300 جھوٹ
  • ہدایۃ المسلمین (نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبوی۔)
  • اختصار علوم الحدیث (حافظ ابن کثیر کی کتاب کا ترجمہ ہے)
  • تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات جلد اول تاچہارم (ان میں ماہنامہ الحدیث میں شائع ہونے والے مضامین کو جمع کیا گیا ہے۔)
  • فتاوٰی علمیۃ (المعروف توضیح الکلام 2 جلدیں)
  • لقول المتین فی الهبربالتامین۔
  • آل دیوبند سے 200 سوالات
  • صحیح بخاری پر اعتراض کا علمی جائزہ (یہ کتاب منکرین حدیث کی کتاب "اسلام کے مجرم" کا جواب ہے)
  • مختصر صحیح بخاری
  • دین میں تقلید کا مسئلہ
  • امین اوکاڑوی کاتعاقب
  • بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم
  • انوار الصحیفہ فی احادیث الضعیفہ۔
  • تحفة الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء۔

اس کے علاوہ اور بھی کتب ہیں نیز کتب احادیث پرتحقیق و تخریج کا کام بھی کیا۔

تصنیفی خدمات کے علاوہ آپ نے ابطال باطل کے لیے مناظرے بھی کیے ہیں بلکہ مناظروں کے لیے دور دراز کا سفر بھی کیا ہے۔

کلمات ثناء و خصائص نبیلہ

علم حدیث کے ممتاز ماہر اور فن اسماء رجال کے شہ سوار تھے۔ بڑے متقی اور عابد، زاہد انسان تھے۔ علم وعمل کے آفتاب تھے۔ حق صداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا ان پر واضح ہوجاتا اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی طاقت انہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی۔ اور اس معاملہ میں کسی لومۃ لائم کی پروا نہ کرتے تھے۔

احادیث کی صحت وسقم کے بارہ میں شیخ صاحب کی تحقیقات بہت وسیع تھیں اور وہ ان کی یہ عادت تھی کہ حدیث پرحکم لگانے سے پہلے اس حدیث کی پوری تحقیق فرمایا کرتے تھے اوراگراس سلسلہ میں ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی اور جب انہیں احساس ہوتا تو وہ علانیہ اپنی غلطی سے رجوع فرماتے تھے۔ اور یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی جو خال خال لوگوں میں ہی نظر آتی ہے۔ موجودہ دور میں گمراہ فرقے ثقہ وثبت رواۃ حدیث کو اپنی نفسیاتی خوہشات کی وجہ سے ضعیف باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ایسے باطل فرقوں کے خلاف موصوف کا قلم فوری حرکت میں آجایا کرتا تھا۔ شیخ کی تحریر انتہائی سلیس عام فہم اردو پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور انداز ایسا جو نتہائی اختصار اور جامع مانع ہو۔ طوالت اور اطناب آپ کی تحریر میں نظر نہیں آتا۔ محتصر مگر جامع۔ دوران مطالعہ اگر کوئی علمی نکتہ نظر آ جاتا تو اس کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ ماہنامہ الحدیث میں ایک شزرے کے طور پر شائع کرکے تمام قارئین کے لیے عام کردیتے تھے۔ حافظ زبیر علی زئی اتنہائی سادہ لوح، بے تکلف ہنس مکھ اور نرم دل ونرم مزاج آدمی تھے۔ شیخ زبیر علی زئی کا انداز تدریس بھی ممتاز تھا مسئلہ کی تفہیم اس آسانی سے فرماتے کہ طلاب علم بآسانی سمجھ جاتے تھے۔

جماعت اہل حدیث کے ممتاز علما کرام نے ان کی شان میں تعریفی کلمات کہے ہیں۔ جن میں شیخ رفیق اثری، شیخ ارشاد الحق اثری، شیخ مسعود عالم، شیخ مبشر احمد ربانی، شیخ عبد الستار حماد، شیخ خلیل الرحمن لکھوی، شیخ خبیب احمد، شیخ محمود الحسن نے تعریفی کلمات کہے ہیں اور بلاشبہ عظیم محدث علم کے پہاڑ علم اسماءالرجال کے ماہر اور انتہائی پاکیزہ صفت محقق تھے۔

وفات

جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین محقق شہر جامع صفات النبیلہ حافظ زبیر علی زئی صاحب کو اپنی آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا۔ تقریبًا ڈیڑھ ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ اور پھر بروز اتوار 5 محرم الحرام 1435 ہجری بمطابق 10 نومبر 2013 عیسوی میں اس دنیا سے رخصت ہو کر خالق حقیقی سے جاملے۔ شیخ کا نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں میں علامہ عبد المجید ازہر نے پڑھایا۔ نماز جنازہ میں علما، طلبہ سمیت کثیر تعداد میں ملک بھر سے لوگوں نے شرکت کی۔ تقریبًا 10 ہزار سے زائدافراد آپ کے جنازہ میں شریک تھے۔ ان کی وفات کچھ حلقوں میں بروئے حدیث امت کے لیے ایک بہت بڑا نقصان سمجھی گئی۔

حوالہ جات

  1. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Noor-ul-Enain-Rafa-ul-Yadain/#13
  2. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Noor-ul-Enain-Rafa-ul-Yadain/#13
  3. مقالات 1؍505
  4. مقالات 1؍494
  5. مقالات 1؍492
  6. مقالات 1؍509
  7. مقالات 1؍508

1. محمد إسحاق بهٹي گلستان حديث (أردو)، لاهور : مكتبة قدوسية، ط1 : 2011م-

2. حافظ زبير علي زئي، أضواء المصابيح في تحقيق مشكاة المصابيح، لاهور : مكتبة إسلامية، ط1، 2010م،

3. حافظ زبير علي زئي، الاتحاف الباسم في تحقيق موطأ الإمام مالك رواية عبد الرحمن القاسم، مكتبة الحديث حضرو : أٹك/پاكستان، ط1، 2009م ،

4. حافظ زبير علي زئي، أنوار الصحيفة في الأحاديث الضعيفة من السنن الأربعة، مكتبة الحديث حضرو : أٹك پاكستان، ط2، 1432هأ:2010م ،

5. مجلة الحديث الشهرية، مدير : حافظ زبير علي زئي، الناشر : مكتبة الحديث حضرو : أٹك/پاكستان، تأسيس : 2004م

6. حافظ زبير علي زئي، مقالات الحديث، مكتبة الحديث حضرو : أٹك/پاكستان، ط1، 2011م

7. حافظ زبير علي زئي، تحقيقي وإصلاحي وعلمي مقالات، مكتبة إسلامية : لاهور/پاكستان، ط1، 2010م

8. حافظ زبير علي زئي، تحقيقي وإصلاحي وعلمي مقالات، الكتاب انترنيشنال : دلهي/الهند، ط1، 2013 م

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.