جنگ باجوڑ
جنگِ باجوڑ جسے آپریش شیر دل کا نام دیا گیا تھا، پاکستان کے باجوڑ کے علاقے میں ہونے و الی فوجی کارروائی تھی جس میں فرنٹیئر کور اور پاکستان آرمی کے جنگجو برگیڈ نے حصہ لیا تھا۔ باجوڑ کے علاقے پر 2007 کے اوائل سے ہی طالبان نے قبضہ کر لیا تھا اور کہا جاتا تھا کہ القاعدہ کا بنیادی کمانڈ اینڈ کنٹرول مرکز یہاں قائم تھا جس سے شمال مشرقی افغانستان بشمول کنڑ صوبہ میں ہونے والی کارروائیاں کنٹرول کی جاتی تھیں۔ باجوڑ اب طالبان سے پاک ہو چکا ہے۔
جنگ باجوڑ (آپریشن شیر دل) | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
بسلسلہ the شمالی مغربی پاکستان میں جنگ | |||||||
| |||||||
محارب | |||||||
![]() ![]() |
![]() ![]() ![]() | ||||||
کمانڈر اور رہنما | |||||||
![]() |
![]() ![]() | ||||||
شریک یونٹیں | |||||||
سرحد کور 26th Infantry Brigade | |||||||
طاقت | |||||||
9,000–15,000[1] | ~4,000[1] | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
97 killed 404 wounded 5 captured (Army)[2][3] 176+ killed (tribesmen)[4][5][6][7][8][9][10][11][12] |
1,500 killed 2,000 wounded | ||||||
150 civilians killed[13][14] 2,000 wounded |
باجوڑ کی گھات
اگست 2008 کے اوائل میں فرنٹیئر کور نے لوئی سام کے قصبے کے نزدیک ایک چوکی لنے کے نظام سنبھالنے کے لیے ایک چوکی بنائی۔ یہاں سے سرحد عبور کی جاتی تھی۔ کھر سے 12 کلومیٹر دور اس جگہ پر جو باجوڑ ایجنسی کا انتظامی صدر مقام ہے، پر تحریکِ طالبان کے حامی جنگجوؤں کا قبضہ تھا۔ افغانستان کے کنڑ صوبے جانے کے لیے لوئی سام کی کلیدی اہمیت ہے۔ ایف سی کے ان ڈیڑھ سو جوانوں کو سینکڑوں طالبانوں نے گھیرے میں لے لیا اور خونریز جنگ شروع ہو گئی۔ تین دن کی جنگ کے بعد ایف سی کے جوان کھر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ بظاہر طالبان نے معرکہ مار لیا تھا۔
آپریشن شیر دل
تاہم کئی دن بعد ایف سی نے میجر جنرل طارق خان کی سربراہی میں ایک بڑا حملہ شروع کر دیا جس کا نام آپریشن شیر دل رکھا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد باجوڑ پر سے طالبان کے قبضے کو ختم کرنا تھا۔ ایف سی اور پاکستانی فوج کے 8,000 جوان اس میں شریک ہوئے۔ ان کی مدد کے لیے کوبرا اٹیک ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیارے موجود تھے جنہوں نے طالبان کی کمین گاہوں پر بمباری کی۔ پاکستانی فوج کی مدد کے لیے ہوائی فوج نے انتہائی جارحانہ انداز میں حملے جاری رکھے۔ پاکستان کے فوجی ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج طالبان کی مزاحمت کی شدت سے حیران ہو گئی۔ طالبان انتہائی جدید حکمتِ عملی سے پہلے سے محفوظ کیے گئے مورچوں سے مزاحمت کر رہے تھے۔
اس سال کے اختتام تک پاکستانی فوج نے 1,000 سے زیادہ جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعوٰی کیا جن میں القائدہ کا مقامی رہنما مصر کا باشندہ ابو سعید المصری بھی شامل تھا۔ فوج کے 82 جوان شہید ہوئے۔ پاکستانی فوج نے طالبان کے خلاف مقامی قبائل کو بھی لشکر بنانے کا کہا تاکہ وہ فوج کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لے سکیں۔ سالار زئی قبائل نے 4,000 مسلح جوانوں پر مشتمل لشکر بنایا اور فوج کے ساتھ لڑائی میں حصہ لینے پہنچ گئے۔ 7 اکتوبر کو سالار زئی کے زعماء نے اعلان کیا کہ ان کا علاقہ طالبان سے پاک ہو چکا ہے اور فوج آ کر یہاں کا انتظام سنبھال سکتی ہے۔
کئی ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں میرئٹ ہوٹل پر ہونے والا 20 ستمبر کا حملہ بظاہر طالبان نے باجوڑ کی لڑائی کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔
8 اکتوبر کو پارلیمان میں دی جانے والی بریفنگ کے بعد فوج نے اعلان کیا کہ 321 غیر ملکیوں سمیت کل 2,744 جنگجو مارے گئے ہیں جبکہ 1,400 سے زیادہ زخمی جنگجو ملک بھر سے گرفتار ہوئے ہیں۔ 25 اکتوبر کو پاکستانی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے لوئی سام کو طالبان سے چھڑ الیا ہے۔ 25 اکتوبر تک باجوڑ میں 500 مسلح جنگجو مارے گئے۔ 2008 کے اختتام تک فوج نے تورغدئی، نواگئی، اتمان خیل اور سالا رزئی کے علاقے کا نظام سنبھال لیا تھا۔ 2009 کے وسط تک ماموند اور چہرمنگ کی وادیوں کا انتظام بھی فوج کے پاس آ چکا تھا۔ فروری 2010 میں تازہ دستوں کی مدد سے ڈمہ ڈولہ کے مشکل علاقے سے مسلح جنگجوؤں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں سے لڑائی جاری رہی اور مارچ 2010 میں باجوڑ کو طالبان سے چھڑ الیا گیا۔ اس آپریشن کے اختتام پر ڈھیروں جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے اور سرچ آپریشن شروع ہو گئے۔
سٹریٹیجک اہمیت
اس لڑائی کو پاکستان کی طرف سے طالبان کے خلاف جنگ کا فیصلہ کن موڑ سمجھا جاتا ہے۔ فوجی حکام کے مطابق اس جنگ سے دوسرے قبائل کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو سکتا تھا۔ ان کے بقول وزیرستان کے باہر باجوڑ میں طالبان سب سے اہم اور مضبوط مرکز بن سکتا تھا۔ اس لڑائی میں شریک ہونے کے لیے افغانستان سے بھی طالبان پہنچے جس کی وجہ سے بین الاقوامی فوج کو افغانستان میں کچھ آسانی ہوئی۔
طالبان کی شکست
28 فروری 2009 کو سیکورٹی فورسز نے بالآخر طالبان اور دیگر اسلامی گروہوں کو باجوڑ میں شکست دے دی جو افغان سرحد کے پاس ہونے کی وجہ سے کلیدی اہمیت رکھتا تھا۔ میجر جنرل طارق خان جو سات میں سے پانچ ایجنسیوں میں ہونے والے آپریشن کے سربراہ تھے، نے کہا کہ فوج اور ایف سی نے باجوڑ میں زیادہ تر جنگجوؤں کو ختم کر دیا ہے۔ باجوڑ رقبے کے لحاظ سے سب سے چھوٹی لیکن افغانستان جانے کے لیے اہم ترین راستہ ہے۔ یہ آپریشن چھ ماہ جاری رہا اور فوج اور ایف سی نے 1,500 سے زیادہ جنگجو ہلاک کیے جبکہ ان کے اپنے 97 فوجی شہید اور 404 شدید زخمی ہوئے۔
کمان
میجر جنرل طارق خان
جنرل طارق خان نے اس آپریشن کے دوران ایف سی کے انسپکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں اس لڑائی کا نقشہ ساز بھی کہا جاتا ہے۔ انہی کی کاوشوں سے ایف سی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے انتہائی اہم فوج بن گئی ہے۔ انہوں نے اس آپریشن کی ذاتی سطح پر نگرانی کی۔ لڑائی کے اہم ترین مراحل پر اگلے مورچوں میں ان کی موجودگی کی وجہ سے ان کے ماتحتوں کے لیے انتہائی کارآمد ثابت ہوئی تھی۔
برگیڈئیر جنرل عابد ممتاز
ابرگیڈئیر جنرل عابد ممتاز باجوڑ کے آپریش شیر دل کے کمانڈنگ افسر تھے۔ ان کی وجہ شہرت لڑائی کے دوران اگلے مورچوں میں جوانوں کی رہنمائی کرنا ہے۔ انہوں نے 9 ستمبر 2008 کو اپنے کام سے اپنے جذبے کی بہترین مثال پیش کی جب ان کی زیر کمان فوج رشکئی پہنچی تو نصر آباد کے مقام پر جنگجوؤں نے حملہ کر کے رابطہ توڑ دیا۔ انہوں نے اگلے مورچوں پر رہنے کو ترجیح دی اور پندرہ تک رابطے کو بحال کرنے کی مسلسل کوششیں جاری رکھیں اور ہیڈ کوارٹر تب واپس آئے جب رابطہ بحال ہو چکا تھا۔ ان کی بہادری کے پیشِ نظر انہیں تمغے سے نوازا گیا۔
برگیڈئیر جنرل ظفر الحق
برگیڈئیر جنرل ظفر الحق برگیڈئیر جنرل عابد ممتاز کی جگہ 24 فروری 2010 کو پہنچے۔ برگیڈئیر جنرل ظفر الحق انتہائی نڈر اور دلیر فوجی ہیں اور انہوں نے طالبان کے چھوٹے چھوٹے گروہوں پر حملے شروع کر دیے۔ انہوں نے فوج کو باجوڑ کے گوشے گوشے تک پھیلا دیا۔
درجِ ذیل بٹالین یونٹوں نے بھی آپریشن شیر دل میں حصہ لیا
- لیفٹیننٹ کرنل بلوچ
- لیفٹیننٹ کرنل منور
- لیفٹیننٹ کرنل انجم
- لیفٹیننٹ کرنل نادر
- لیفٹیننٹ کرنل اسد
- لیفٹیننٹ کرنل علی
- لیفٹیننٹ کرنل راشد
- لیفٹیننٹ کرنل امجد
کرنل نعمان سعید
کرنل نعمان سعید جو باجوڑ آپریشن کے کمانڈٹ آپریش تھے، کو 14 اگست 2008 کو انتظام سنبھالنا تھا تاہم غیر معمولی حالات کے پیشِ نظر انہیں 6 اگست کو ہی روانہ ہونا پڑا۔ لوئی سام کے چاروں اطراف جنگجو موجود تھے اور انہوں نے وہاں کے لیے ایک پارٹی بھیجی۔ جب پہلی کوشش ناکام ہوئی تو انہوں نے دوسری بار خود کوشش کی۔ تاہم ان کی پارٹی پر جنگجوؤں نے گھات لگائی اور نتیجتاً انہیں آٹھ گھنٹوں سے بھی زیادہ لڑائی لڑنی پڑی حتٰی کہ دوسری پارٹی لوٹ آئی۔
ایک اور واقعے میں جب میجر جنرل طارق خان کے قافلے پر گھات لگائی گئی تو کرنل نعمان ٹینک پر بیٹھ کر اور کوئیک ریسپانس فورس کے ساتھ جائے وقوعہ پر گئے اور وہاں جا کر انہوں نے ایک گاڑی پر سوار جوانوں کو بچایا۔ یہ گاڑی جنگجوؤں کے حملے کی وجہ سے ناکارہ ہو چکی تھی۔ اس لڑائی میں کرنل نعمان کے ٹینک پر بہت سارے راکٹ لگے اور ڈرائیور کو بھی گولی لگی لیکن ان کا مشن کامیاب رہا۔ کرنل نعمان کو بھی تمغے سے نوازا گیا ہے۔
حوالہ جات
- AFP: Pakistan in victory over Taliban in border area: commander. Google.com (28 February 2009). Retrieved on 19 October 2011.
- http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/Dawn%20Content%20Library/dawn/news/pakistan/nwfp/taliban-release-five-soldiers-in-khar--bi
- The News International: Latest News Breaking, Pakistan News
- The News International: Latest News Breaking, Pakistan News
- Karachi News. Karachipage.com. Retrieved on 19 October 2011.
- Article. Rantburg.com (14 October 2008). Retrieved on 19 October 2011.
- 22 tribesmen killed in suicide attack on local jirga in Bajaur – Thaindian News. Thaindian.com (7 November 2008). Retrieved on 19 October 2011.
- ‘Regular troops deployed at Afghan border’. Thenews.com.pk. Retrieved on 19 October 2011.
- Archive | Your Source of News on the World Wide Web. Dawn.Com. Retrieved on 19 October 2011.
- Leading News Resource of Pakistan. Daily Times (30 December 2008). Retrieved on 19 October 2011.