امداد صابری

امداد الرشید صابری (پیدائش: 16 اکتوبر 1914ء - وفات: 13 اکتوبر 1988ء) ہندوستان کے نامور صحافی، مجاہد آزادی، کونسلر اور دلی کے سابق نائب ناظم شہر (ڈپٹی میئر) تھے۔ انہیں تحریر و تقریر دونوں فن میں کمال حاصل تھا، نہایت نیک نفس اور پابند شرع مشہور تھے۔ ان کی مشہور تصنیفات میں تاریخ صحافت اردو، تاریخ آزاد ہند فوج، دہلی کی یادگار شخصیتیں اور فرنگیوں کا جال قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے تقریباً پچاس برس اردو اور خصوصاً اردو صحافت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔[1]

امداد صابری
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 16 اکتوبر 1914ء
تاریخ وفات اکتوبر 13، 1988(1988-10-13) (عمر  73 سال)
قومیت بھارتی
عملی زندگی
پیشہ صحافت
دور فعالیت پچاس برس

امداد صابری کا جذبہ خدمت اور ملی غیرت معروف تھی۔ صاف گو تھے اور کسی غلط بات کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اسی بنا پر وہ کانگریس اور اس کے سربراہوں سے نبھا نہ سکے۔ کانگریسی رہنماؤں کی بجائے وہ سبھاش چندربوس کو زیادہ اہمیت دیتے اور ان سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ اسی عقیدت و محبت کی بنا پر انہوں نے آخر تک سبھاش چندربوس جیسی ٹوپی استعمال کرتے رہے۔[2]

ابتدائی زندگی

امداد صابری کی پیدائش 16 اکتوبر سنہ 1914ء کو دہلی کے معروف علاقہ چوڑی والان میں ہوئی۔ جس خاندان میں ان کی ولادت ہوئی وہ اپنے علم و فضل میں مشہور تھا۔ ان کے والد اشرف الحق صابری اپنے عہد کے مشہور عالم دین تھے، انہیں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور رشید احمد گنگوہی سے خاص تعلق تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند کے نام "امداد الرشید صابری" میں دونوں شخصیتوں کے نام یکجا کر دیے۔[3]

علمی و سیاسی زندگی

امداد صابری اپنے عہد کے معروف صحافی اور قلمکار تھے۔ تاریخ صحافت اردو کے نام سے انہوں نے تین ضخیم جلدوں میں صحافت کی مبسوط تاریخ لکھی، ان کے علاوہ متعدد موضوعات پر بھی کئی کتابیں تحریر کیں۔ وہ متعدد اخباروں اور رسالوں کے مدیر بھی تھے۔ شہیر الدین اشرف کے ہفت روزہ "مشاہدہ" کے برسوں مدیر رہے۔ دلی کی دیواری صحافت یعنی پوسٹروں کی اشاعت اور انہیں راتوں رات دیواروں پر چسپاں کرنے کا شوق تھا۔ ان کے پوسٹر خاصے دلچسپ اور زبان و بیان کے لحاظ سے منفرد اور موثر ہوتے تھے۔

علمی ذوق کے ساتھ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا اور کئی جماعتوں میں شامل رہ کر متعدد انتخابات میں حصہ لیا اور دو مرتبہ کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ وہ دہلی کارپوریشن کے نائب ناظم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔[4]

ذاتی زندگی

امداد صابری انتہائی سادہ مزاج تھے۔ کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے میں بھی سادگی پسند کرتے تھے۔ ان کے اندر خدمت انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اپنے گھر کی سادہ سی بیٹھک میں وہ اپنے کاموں اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے۔

امداد صابری کے دو صاحبزادے ہیں، شرف صابری اور احمد صابری۔[5]

تصنیفات

امداد صابری نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

  • تاریخ صحافت اردو (تین جلدوں میں)
  • تاریخ جرم و سزا (تین جلدوں میں)
  • فرنگیوں کا جال
  • داستان پرغم
  • تاریخ آزاد ہند فوج
  • نیتاجی سبھاش چندربوس کے ساتھ
  • سبھاش بابو کی تقریر
  • آزاد ہند فوج کا البم
  • 1857ء کے مجاہد شعرا
  • 1857ء کے غدار شعرا
  • حاجی امداد اللہ اور ان کے خلفا
  • رسول خدا کا دشمنوں سے سلوک
  • رسول خدا کی غریبوں سے محبت
  • فیضان رحمت
  • دہلی کی یادگار شخصیتیں
  • دہلی کے قدیم مدارس اور مدرّس
  • سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں
  • اللہ کے گھر میں بار بار حاضری
  • اخبار مخبر عالم مرادآباد اور تحریک آزادی
  • آثار رحمت
  • جنوبی افریقہ کے اردو شاعر
  • روح صحافت

وفات

13 اکتوبر 1988ء کو کچھ عرصے بیمار رہنے کے بعد 74 برس کی عمر میں دلی میں وفات پائی اور مہندیاں کے قبرستان میں دفن ہوئے۔[1]

حوالہ جات

  1. ظفر انور۔ دہلی کے 50 صحافی۔ نئی دہلی: ظفر انور۔ صفحہ 230۔ مورخہ 10 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  2. ظفر انور۔ دہلی کے 50 صحافی۔ نئی دہلی: ظفر انور۔ صفحہ 233۔ مورخہ 7 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  3. ظفر انور۔ دہلی کے 50 صحافی۔ نئی دہلی: ظفر انور۔ صفحہ 232۔ مورخہ 12 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  4. ظفر انور۔ دہلی کے 50 صحافی۔ نئی دہلی: ظفر انور۔ صفحہ 234۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  5. ظفر انور۔ دہلی کے 50 صحافی۔ نئی دہلی: ظفر انور۔ صفحہ 231۔ مورخہ 5 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.