ابراہیم نخعی

ابراہیم نخعی امام حافظ اور اپنے زمانے میں کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ اس وجہ سے انہیں فقیہ العراق کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کی روایات صحاح ستہ اور باقی تمام بنیادی حدیث کی کتب میں موجود ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ملیکہ بنت یزید تھا جو امام اسود بن یزید اور عبد الرحمن بن یزید کی بہن تھیں جو عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب میں شامل ہیں۔ نخعی کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ تقریباً 47ھ میں پیدائش ہوئی۔ 96ھ میں وفات ہوئی۔

ابراہیم نخعی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 666  
یمن  
وفات سنہ 714 (4748 سال) 
عراق  
شہریت سلطنت امویہ  
عملی زندگی
استاذ علقمہ بن قیس  
تلمیذ خاص حماد بن سلمہ ، سلیمان بن مہران الاعمش  
پیشہ الٰہیات دان ، فقیہ ، محدث  
پیشہ ورانہ زبان عربی  
شعبۂ عمل فقہ ، علم حدیث  
باب اسلام

نام ونسب

ابراہیم بن یزید بن قیس بن اسود بن عمرو بن ربیعہ بن ذہل بن سعد بن مالک بن نخع نخعی، یمانی، ثم کوفی۔ کنیت ابو عمران ہے۔

حدیث

امام ابو الحسن عجلی فرماتے ہیں، ”ابراہیم نے کسی صحابی رسول ﷺ سے روایت نہیں لی ہے لیکن ان کی ایک جماعت کا زمانہ پایا ہے اور عائشہ کو بھی دیکھا ہے۔ وہ اور شعبی اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے مفتی تھے۔ وہ صالح فقیہ، محتاط اور قلیل التکلف شخص تھے۔“[1] امام اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں، ”شعبی، ابراہیم اور ابو ضحی مسجد میں جمع ہو کر حدیث پر تذکرہ کیا کرتے تھے اور جب ان کے پاس کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس میں ان کے پاس کوئی روایت نہ ہو تو وہ ابراہیم کی طرف اپنی نظریں جماتے تھے۔“[2][3] جب ابراہیم فوت ہوئے امام شعبی نے فرمایا، ”انہوں نے اپنے بعد کوئی ان جیسا نہیں چھوڑا۔“[4] امام یحیی بن معین، ابو زرعہ، نسائی، ابن سعد، ابن حبان وغیرہ نے انہیں ثقہ کہا ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

عمل اہل کوفہ

انہوں نے اہل کوفہ کی طرح عبد اللہ بن مسعود کے طریقے کو لازم پکڑا اور ان کی روایات، فقہ اور قراءت میں مہارت حاصل کی یہاں تک کہ علی بن مدینی نے فرمایا، ”میرے نزدیک ابراہیم اصحاب عبد اللہ کے بارے میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے اور دقیق العلم تھے۔“[5] عبد اللہ بن مسعود کے اصحاب گنوانے کے بعد، علی بن المدینی فرماتے ہیں، ”اور عبد اللہ بن مسعود کے ان چھ (کبار) اصحاب کے وہ اصحاب جو ان کے قول کی پیروی کرتے اور ان کے فتوی کے مطابق فتوی دیتے، ان میں ابراہیم نخعی شامل ہیں۔[6] اور قرآن کی قراءت بھی ابراہیم نے عبد اللہ بن مسعود کے طریقے پر لی ہے، چنانچہ ابو عمرو الدانی فرماتے ہیں، ابراہیم نے قراءت قرآن علقمہ اور اسود سے لی ہے۔[7] الغرض ابراہیم نخعی کی تمام فقہ، قراءت اور مذہب عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب کے مطابق تھی اور انہوں نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے لیا تھا۔ اور ان سے پھر اس طریقے کو اعمش، سفیان اور وکیع وغیرہ نے اس طریقے کو اپنایا اور اسی طریقے کو فقہ اہل کوفہ یا فقہ عبد اللہ بن مسعود کا نام دیا گیا۔ چنانچہ امام علی بن مدینی مزید فرماتے ہیں، ”اور اہل کوفہ میں ان لوگوں کے علم کو سب سے زیادہ جاننے والے، جنہوں نے ان کے فتاوی کے مطابق فتوی دیا اور ان کے مذہب کی پیروی کی، ان میں اعمش اور ابو اسحاق شامل ہیں۔۔۔۔۔ اور ان کے بعد سفیان الثوری بھی ان کے مذہب پر چلے اور ان کے قول کے مطابق فتوے دیے۔ اور سفیان کے بعد، یحیی بن سعید القطان سفیان الثوری اور اصحاب عبد اللہ کے مذہب پر چلے۔“[8] گویا اہل کوفہ کی مجموعی فقہ کی سند عبد اللہ بن مسعود اور ان کے اصحاب کی طرف لوٹتی ہے۔ اور اسی کو فقہ اہل کوفہ کہا جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1. کتاب الثقات: 3
  2. الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/1/144
  3. تاریخ یحیی روایۃ عباس: 2/17
  4. سیر اعلام النبلاء: 4/526
  5. العلل لابن المدینی: ص 43
  6. العلل لابن المدینی: ص 43
  7. سیر اعلام النبلاء: 4/529
  8. العلل لابن المدینی: ص 44
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.