آرامی حروف تہجی

سامی نسل کے آرامی قبیلوں کا خط جو دسویں صدی قبل مسیح میں فونیقیوں کے خط سے اخذ کیا گیا۔ اس کا لکھنا سہل تھا، جس کی وجہ سے یہ خط بین الاقوامی تجارت کا واسطہ بنا رہا۔ خط آرامی 22 حروف پر مشتمل ہے۔ اس خط کے نمونے تخت جمشید کے کھنڈروں میں تختیوں، ہاون دستوں اور برتنوں پر سیاہی میں لکھے ہوئے ملے ہیں۔ مصر میں بھی چمڑے پر تحریریں ملی ہیں۔ ایشائے کوچک وغیرہ میں آرامی کتبے کھدائی میں دستیاب ہوئے ہیں۔ اس خط کے دو کتبے سکندر کی موت کے ساٹھ ستر سال بعد کے زمانے کے ہیں۔ اسی رسم الخط نے بعد میں ترقی کر کے عربی اور فارسی کی صورت اختیار کرلی ، رسول اللہﷺ نے شاہ مقوقس بادشاہ مصر کو جو خط ارسال کیا تھا وہ اسی تبدیل شدہ آرمی - عربی رسم الخط میں لکھا گیا تھا-[1]

آرامی حروف تہجی
Aramaic alphabet
قِسم ابجد
زبانیں آرامی زبان، عبرانی زبان، سریانی زبان، مندائی زبان، Edomite
مدّتِ وقت 800 BC to 600 AD
بنیادی نظام
طفلی نظام

عبرانی حروف تہجی
Palmyrene
Mandaic
پہلوی زبان
براہمی رسم الخط
Kharoṣṭhī
سریانی حروف تہجی
 Sogdian
   Old Uyghur
     Mongolian
 نبطی حروف تہجی
   عربی حروف تہجی

     N'Ko alphabet
آیزو 15924 Armi, 124
  Imperial Aramaic
سمت دائیں سے بائیں طرف
یونیکوڈ عرف Imperial Aramaic
یونیکوڈ رینج U+10840–U+1085F
نوٹ: اس صفحہ پر بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ صوتی علامات شامل ہو سکتی ہیں۔

ان میں سے ایک ٹیکسلا اور دوسرا دریائے کابل کے کنارے جلال آباد کے قریب لمپاکا یعنی تھمان سے ملا ہے۔ ایران میں خط آرامی کا سب سے پرانا نمونہ بغ دات پسر بغکرت کے سکے پر محفوظ ہے۔ یہ حکمران ہنجامنشی شہزادوں میں سے تھا۔ جس کو سکندر نے 323ق۔ م میں ایرانیوں پر اثرورسوخ کے باعث فارس پر بحال رکھا۔

حوالہ جات

  1. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا- ص ٣٩، ج اول۔از سید قاسم محمود، عطش درانی- مکتبہ شاہکار لاہور
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.