یزید بن ابو سفیان

یزید بن ابو سفیان صحابہ کرام میں سے ایک تھے۔ ان کا ذکر کیے بغیر، ملک شام کی فتح کا ذکر ناقص اور ادھورا رہ جائے گا کیونکہ سب سے پہلے ملک شام کے بادشاہ ہرقل کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کے لیے ان کو ہی روانہ کیا گیا تھا۔

یزید بن ابو سفیان
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ  
وفات نومبر 639  
اماؤس  
وجۂ وفات طاعون  
والد ابو سفیان بن حرب  
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد  

قیصر کی سلطنت

ملک شام کا بادشاہ ہرقل جس کا لقب قیصر تھا وہ اس وقت کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔ شاہِ ایران کسریٰ اور شاہ روم قیصر اس وقت کی دو ایسی سپر پاور طاقتیں تھیں کہ جو آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرتی تھی لیکن کوئی تیسرا ان میں سے کسی ایک سے بھی جنگ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ قیصر کی سلطنت کی سرحدیں مصر، شام اور قسطنطنیہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔

قیصر پر پہلا حملہ

قیصر کی سلطنت پر پہلا حملہ جناب محمد رسول الله ﷺ کی زندگی میں، ؁ھ ٨ میں موتہ کے مقام پر کیا گیا، جو دراصل قیصر کی سرکشی اور ظلم کا جواب تھا۔

عہد صدیق

جب حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالٰی عنہ خلیفۃ المسلمین بنائے گئے تو ان کے سامنے کئی پریشانیاں تھی۔ ارتداد کا فتنہ تھا اور بغاوت کا خدشہ بھی۔ لیکن آپ نے تمام مسائل کو بحسن و خوبی حل کیا۔

ایک قدم اور

بہت سارے فتنوں اور اندیشوں میں ایک یہ بھی تھا کہ اگر ملک شام کی سرحد پر حفاظت اور اقدام کا معقول انتظام نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ کبھی وہ مدینہ کے خلاف جنگ کا آغاز کر دے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے 634 عیسوی میں ایک ہزار گھوڑ سوار فوج کو یزید بن ابو سفیان رضی الله عنہ کی قیادت میں ملک شام روانہ کیا اور اس کے قبیلۂ عامر کے ایک جانباز ربیعہ بن عامر کی قیادت میں ایک ہزار کی فوج بھیجی اور اس پوری فوج کا کمانڈر اعلی یزید بن ابو سفیان کو بنایا۔ اس فوج کے مقابلے میں شاہ ہرقل (قیصر) نے دس ہزار کی فوج روانہ کی۔ قیصر کی رومی فوج چونکہ اپنے ملک میں تھی اور بہت ساری سہولتیں انہیں مہیا تھیں اس لیے مسلم فوج کی پریشانی کا سبب بننے لگی۔

کمک

مسلمانوں کے لیے جب صورت حال مخدوش ہونے لگی تو خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے کمک کے لیے 9000 نو ہزار کی فوج عمرو بن العاص کی قیادت میں روانہ کیا اور اس کے بعد ابو عبیدہ بن جراح کو روانہ کیا گیا اور پورے فوج کی قیادت ان کے یعنی ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کے سپرد کی گئی۔

سیف اللہ کی قیادت

خالد بن ولید رضی الله عنہ کا لقب سیف اللہ ہے اور فاتح شام بھی ان کو کہا جاتا ہے۔ تو جب مسلم فوج ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کی قیادت میں ملک شام میں قیصر کی رومی فوج سے بر سر پیکار تھی اس وقت ﷲ سبحانہ وتعالیٰ کو شاید کچھ اور منظور تھا چنانچہ ہرقل کی جنگی مہارت سے مسلمان کچھ دھوکا کھا گئے اور رومی فوج نے ایک طرح سے مسلمانوں کے گرد حصار ڈال دیا جس حصار سے نکالنے کے حضرت ابو بکر صدیق نے خالد بن ولید کو روانہ کیا جو اس وقت فتنۂ ارتداد کو کچلنے کے بعد شاہ ایران کسریٰ کے محلات کو ظلم و استبداد سے پاک کر رہے تھے۔ جب انہوں نے تمام واقعہ سنا تو ایران کا محاذ مثنیٰ ابن حارثہ کے سپرد کیا اور برق رفتاری سے ملک شام اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچے اور تمام لشکر کے سپہ سالار اعلی بنے۔ تمام لشکر کو آپ نے چند حصوں میں تقسیم کیا اور میسرہ (بائیں بازوں) کی قیادت یزید بن ابوسفیان کے حوالے کی۔

رشتے دار

یزید کے والد ابو سفیان بن حرب تھے، ماں کا نام زینب بنت نوفل تھا ایک بھائی امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہ تھے جن کی ماں حضرت ہندہ بنت وہب تھیں۔

حاکم دمشق

جب ملک شام کے کئی علاقے فتح ہو گئے اور دمشق اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا تو یزید بن ابو سفیان کو وہاں کا حاکم (گورنر) بنایا گیا۔

ملک شام کے حکام

شام کی فتوحات کی تکمیل کے بعد ابو عبیدہ بن جراح وہاں کے حاکم بنائے گئے۔ ان کے انتقال کے بعد معاذ بن جبل رضی الله عنہ اور ان کے انتقال کے بعد یزید بن ابو سفیان ملک شام کے حاکم بنے۔

وفات

ملک شام میں طاعون کی بیماری پھیلی تو بڑی بڑی ہستیاں موت کی آغوش میں جا سوئیں، ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل وغیرہ طاعون کے شکار ہوئے اور ایک دن 639 عیسوی میں یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ بھی طاعون کے مرض کا شکار ہو کر مالک حقیقی سے جا ملے۔

حوالہ جات

    [1]

    1. الطبقات الكبير، ابن سعد أسد الغابة في معرفة الصحابة، ابن الأثير الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ابن عبد البر الإصابة في تمييز الصحابة، ابن حجر العسقلاني
    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.