ہیلری کلنٹن

سادہ طبیعت اور حس مزاح سے بھرپور شخصیت کی حامل68 سالہ سابق خاتونِ ا وّل، سینیٹر، وکیل اور امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین کے لیے ہمت اور جرات کا استعارہ ہیں۔ 26 اکتوبر 1947کو شکاگو میں پیدا ہونے والی ہلیری اورسابق امریکی صدر بل کلنٹن 1975 کورشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اس سے قبل1974 میں ہلیری اس دور کے مشہور واٹر گیٹ سکینڈل کیس کی پیروی بھی کر چکی تھیں۔ رچرڈ نکسن کے صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد ہلیری کو آرکنساس یونیورسٹی کا فیکلٹی ممبر بنا دیا گیا، وہ وہاں کی پہلی خاتون معلمہ تھیں۔1976 میں جب بل کلنٹن امریکا کے اٹارنی جنرل منتخب ہوئے تو ہلیری کو صدر جمی کارٹر کے ساتھ کام کا موقع بھی ملا۔ 1978میں32 سال کی عمر میں جب بل کلنٹن گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے توہلیری نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ آرکنساس کی پہلی خاتون معلمہ ہونے کے ناطے انہوں نے ایجوکیشنل سٹینڈر کمیٹی قائم کی، بچوں کے لیے ہسپتال بنوایااور بچوں کے حقوق کے سلسلے میں چلڈرن فنڈز قائم کیے جس کی وجہ سے انہیں امریکا کی طاقتور ترین وکیل قرار دیا گیا۔ ہلیری کلنٹن2001سے2009تک بحیثیت سینیٹربھی کام کرچکی ہیں۔2007 میں انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی میں نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن باراک اوباما کو اکثریت حاصل رہی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے بر سر اقتدار آنے پر ہلیری نے صدر اباما کے ساتھ بطور وزیر خارجہ کام کرنے کو ترجیح دی۔ دسمبر2012 میں ہلیری کی جانب سے بحیثیت امریکی وزیر خارجہ مزیدکام کرنے سے معذرت پر سینیٹرجان کیری کو امریکا کا نیا وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔

نیو جرسی میں اپنی جیت کے بعدہلیری کلنٹن نے کچھ یوں ٹویٹ کیاتھا ”ہر اس لڑکی کے لیے خوشی کے لمحات، جو بڑے خواب دیکھتی ہے۔ ہاں، تم جو چاہتی ہو وہ بن سکتی ہو، یہاں تک کہ صدر بھی“
8 نومبر 2016 کو امریکا میں نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے ۔۔۔
ہیلری کلنٹن
(انگریزی میں: Hillary Diane Rodham Clinton)،(انگریزی میں: Hillary Clinton) 
تفصیل=

67 ویں امریکی وزیر خارجہ
آغاز منصب
جنوری 21, 2009ء
صدر باراک اوبامہ
نائب ولیم برنز (2011-حال)
جیمز سٹینبرگ (2009-2011)
کونڈولیزا رائس
 
مدت منصب
جنوری 3، 2001ء – جنوری 21، 2009ء
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی خاتون اول
مدت منصب
جنوری 20, 1993ء – جنوری 20, 2001ء
آرکنساس کی خاتون اول
مدت منصب
جنوری 11, 1983ء – دسمبر 12, 1992ء
گے ڈینئیل وائٹ
بیٹی ٹیکر
مدت منصب
جنوری 9, 1979ء – جنوری 19, 1981ء
باربرہ پرائر
گے ڈینئیل وائٹ
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (انگریزی میں: Hillary Diane Rodham) 
پیدائش 26 اکتوبر 1947 (72 سال)[1][2][3] 
رہائش نیو یارک
شہریت ریاستہائے متحدہ امریکا [4] 
استعمال ہاتھ دایاں (رائٹ ہینڈڈ) [5] 
مذہب میتھوڈست
جماعت ڈیموکریٹک پارٹی (1968–)[6]
ریپبلکن پارٹی (–1968) 
رکنیت امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون  
شوہر بل کلنٹن (11 اکتوبر 1975–)[7] 
اولاد چیلسا کلنٹن
تعداد اولاد 1  
عملی زندگی
مادر علمی ویلزلی کالج (1965–1969) 
تخصص تعلیم سیاسیات  
تعلیمی اسناد بی اے  
پیشہ سیاست دان ، وکیل [8]، سفارت کار ، مصنفہ ، آپ بیتی نگار ، استاد جامعہ  
مادری زبان انگریزی  
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [9] 
نوکریاں جامعہ آرکنساس  
اعزازات
فلاڈلفیا لبرٹی میڈل (2013) 
دستخط
ہیلری کلنٹن
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ (انگریزی ) 
IMDB پر صفحات 
ہیلری کلنٹن

کیاہلیری کلنٹن پہلی خاتون امریکی صدرہوں گی؟

68سالہ سابق وزیر خارجہہلیری کلنٹن کو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے امریکی صدارتی انتخابات میں پہلی خاتون اُمیدوار ہونے کا اعزاز حاصل ہے
امریکی کی 240 سالہ تاریخ میں عہدہ صدارت کے لیے ہلیری نہ صرف پہلی باقاعدہ خاتون امیدوار ہیں بلکہ ممکنہ طور پر پہلی خاتون صدربھی ہو سکتی ہیں
بلاشبہ عورت نے خود کو منوانے کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں جان توڑ محنت کی ہے تاہم دیگر شعبہ ہائے زندگی کے برعکس سیاست ایک ایسا میدان ہے جو مردوں کو بھی چکرا کر رکھ دیتا ہے۔ ایسے میں ایک باہمت خاتون سیاسی میدان میں اترتی ہے اور پھر عشروں پر محیط جدوجہد کے بعد ایسا وقت آتا ہے کہ لوگ اسے سپر پاور کی پہلی خاتون صدر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خوبصورت مسکراہٹ، دلکش شخصیت اور دردِدل رکھنے والی سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنہیں امریکا کی کسی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے صدارتی امیدوار کے طور پر چنا گیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ ملکی تاریخ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کر دیں گی۔ تازہ ترین نتائج کے مطابقہلیری نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوارکے لیے مطلوبہ ووٹ حاصل کرلئے ہیں چنانچہ امریکا کی 240 سالہ تاریخ میں وہ پہلی خاتون ہیں جو صدارتی انتخاب لڑیں گی۔ یوں رواں ماہ25-28 جولائی کوریاست فلاڈیلفیا (Philadelphia) میں منعقد ہونے جا رہے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں ان کی نامزدگی کا باقاعدہ اعلان امریکا میں نئی تاریخ رقم کرے گا۔ ہلیری نے امریکا کی تاریخ میں خواتین کے ایک تاریخی لمحے تک پہنچنے کے لیے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہیں اپنے قریب ترین حریف برنی سینڈرزپر 30 لاکھ ووٹوں کی سبقت حاصل ہے اور انھیں2219 مندوبین کے علاوہ 523 سپر ڈیلیگیٹس(Superdelegates) کی حمایت بھی حاصل ہے۔ نیو یارک میں خوشی مناتے ہوئے اپنے حامیوں سے انھوں نے کہاتھا”آپ سب کا شکریہ، ہم ایک سنگ میل تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی اہم پارٹی کی جانب سے کوئی خاتون بطور صدارتی امیدوار چنی گئی ہے۔ اگرچہ اس وقت ہم ایک تاریخی اور بے مثال لمحے کے دہانے پر ہیں لیکن ابھی ہمیں اور کام کرنا ہے“۔ ادھرامریکی صدر براک اوباما بھی باضابطہ طور پر ہلیری کلنٹن کو ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے سرکاری سطح پر حمایت کرچکے ہے ں۔ واضح رہے کہ2008 کے انتخابات میں ہلیری کلنٹن صدراتی عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار تھیں تاہم اوباما نے انہیں پارٹی انتخاب میں شکست دی تھی۔ صدرمنتخب ہونے کے بعد باراک اوباما نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر خارجہ کا عہدہ دیا تھا۔2012میں اس عہدے سے سبکدوش ہونے پرامریکی صدر باراک اوباما نے ہلیری کے بارے میں کہا ہے کہ ان کاتذکرہ ملک کی بہترین وزیر خارجہ کے طور پر ہوگا۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ہلیری کے ساتھ چار سال کام کرنے کا تجربہ بہترین تھا۔”مجھے ان کی کمی محسوس ہو گی، کاش وہ کچھ اور دن رک جاتیں“۔ بہرحال پچھلے دنوں صدر اوباما کی ورمونٹ (Vermont)کے سینیٹر برنی سینڈرز سے ملاقات کے بعدبیان سامنے آیا کہ کلنٹن شاید عہدہ صدارت کے لیے سب سے زیادہ قابل اور موزوں شخصیت ہیں۔ اپنے پیغام میں اوباما نے کہاتھا”دیکھو مجھے معلوم ہے کہ یہ کام کتنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہلیری نے اس میں کمال کا درجہ حاصل کر لیا ہے“۔

برنی سینڈرز کا چیلنج

سیاسی حرکیات کا علم رکھنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ امریکا کا صدارتی انتخاب اور پارٹی نامزدگی حاصل کرنے کا مرحلہ ایک پیچیدہ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی صلاحیت کا کڑا امتحان بھی ہوتا ہے۔ بلاشبہ گذشتہ چند ماہ کے دوران صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کے لیے کانٹے دار مقابلے اورتاریخی مباحثے دیکھنے کو ملے۔ اس ابتدائی انتخابی مہم میں ہلیری کواپنی ہی پارٹی میں صدارتی نامزدگی کے خواہش مند برنی سینڈرز(Bernie Sanders) کی صورت میں سب سے بڑاچیلنج درپیش تھابلکہ بعض مبصرین کی جانب سے برنی سینڈرز کو ڈیموکریٹ پارٹی کا ”ڈونلڈ ٹرمپ “بھی کہا گیا۔ ڈیموکریٹ پارٹی میں سینیٹر سینڈرز جیسے نووارد کے برعکس ہلیری کلنٹن نے آٹھ برس خاتونِ اول کی حیثیت سے وائٹ ہاوس میں گزارچکی ہیں تاہم برنی سینڈرز کی جانب سے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر دور تک جڑیں رکھنے والی ہلیری کو 22 ریاستوں میں شکست سے دوچار کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ رواں سال14اپریل کونیویارک میں ہونے والے پرائمری انتخابات میں ہونے والی ایک بحث میں برنی سینڈرز نے یہ تسلیم کیا کہ ہلیری کلنٹن صدر بننے کا تجربہ اور ذہانت رکھتی ہیں لیکن ماضی میں کیے گئے ان کے کئی فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ سینڈرز نے ہلیری کلنٹن پر اس بات کے لیے سخت تنقید کی کہ وہ عراق جنگ کی پرزور حامی تھیں۔ دوسری طرف ہلیری کلنٹن نے بھی برنی سینڈرزکو جم کر رگڑا لگایااور کہا کہ وہ جن مجوزہ پالیسیوں کی بات کرتے ہیں اس سے متعلق وہ خود ابہام کا شکار ہیں۔ دراصل اس بحث سے چند روز قبل ہی میں نیویارک ڈیلی نیوز کے ساتھ اپنے ایک انٹریو میں سینڈرز اپنی ہی کئی مجوزہ پالیسیوں کی وضاحت میں ناکام رہے تھے۔ ہلیری کلنٹن نے یہ کہہ کر سینڈرز کو لاجواب کر دیا کہ مشکلات کی شناخت کرنا آسان ہے لیکن ان کا حل تلاش کرنا خاصا مشکل کام ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی بدزبانی کا مقابلہ

ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں عہدہ صدارت کے لیے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار 70سالہ ارب پتی کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی شخصیت اور متنازع بیانات کی وجہ سے ایسے فوائد بھی ملے ہیں جو دوسرے امیدواروں کے حصہ میں نہ آسکے۔ ٹرمپ کو اپنے بیانات کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں اس قدر جگہ ملی کہ انھیں اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے اشتہاروں پر زیادہ رقم خرچ نہیں کرنی پڑی۔ اگرچہ17مئی2016کو ٹرمپ نے فاکس نیوز کی پریزینٹر میگن کیلی(Megyn Kelly) سے انٹرویو کے دوران تسلیم کیاکہ انھیں اپنی انتخابی مہم میں غلیظ زبان استعمال کرنے پرافسوس ہے لیکن ان کے بقول وہ اس کے بغیراتنی آسانی سے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ واضح رہے کہ میگن کیلی کے ساتھ گذشتہ سال اگست میں ہونے والی پہلی صدارتی بحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی تلخ کلامی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بھی سہولت ہے کہ وہ اپنی مہم کے لیے اپنی جیپ سے رقم خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک انہوں نے اپنی مہم پر چار کروڑ 90 لاکھ ڈالر خرچے ہیں جن میں سے تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر ان کی اپنی رقم تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو انفرادی طور پر ملنے والے عطیات میں چھوٹے عطیات کی تعداد زیادہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انھیں عوامی سطح پر بھی بے پناہ حمایت حاصل ہے لیکن کئی دفعہ ان کی تقریر شروع ہونے سے پہلے ہاتھا پائی کے واقعات بھی تسلسل سے ہوتے رہے ہیں۔ بہرحال انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ہلیری کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیااور ہلیری نے بڑے تحمل سے ٹرمپ کے ہر وار کا مقابلہ کیا۔ رواں برس27اپریل کو ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ہلیری کلنٹن عورت نہ ہوتیں تو انھیں پانچ فیصد ووٹ بھی نہ ملتے۔ انھیں صدارتی دوڑ میں صرف ایک ہی فائدہ ہے کہ وہ عورت ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے جواباً کہا”اگر عورتوں کے لیے ہیلتھ کیئر منصوبے، تنخواہ دار فیملی چھٹی اور خواتین کو برابری کی تنخواہ کے لیے کوشش کرنا عورت کارڈ کھیلنا ہے تو مجھے ایسا ہی سمجھیں“۔ پرائمری انتخابات کے آخری دنوں ہلیری کلنٹن نے تنگ آکر ڈونلڈ ٹرمپ کو”خطرناک حد تک بے ربط“ شخصیت قرار دے دیا اور کہاکہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے لیے انتہائی غیر موزوں ہیں ،ان کا منتخب ہونا ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ ہلیری نے کہا کہ صدارت سنبھالنایہ حقیقت سے قریب تریعنی کوئی ریالٹی ٹی وی شو نہیں بلکہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے۔ بہرحال ہر طرح کے زبانی اورنفسیاتی حملوں کے باوجود ہلیری کلنٹن نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اوراپنے خطابات میں ووٹرز کو یقین دلانے میں کامیاب رہیں کہ وہ اپنے تجربے اور وژن کے مطابق امریکا کو بحرانوں سے نکال کر ایک بار پھر دنیا کی واحد سپر پاور بنانے کا جامع اور قابلِ عمل منصوبہ رکھتی ہیں۔
ہلیری اور خواتین۔۔۔

رواں برس فروری میں امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائٹ کادلچسپ بیان سامنے آیاکہ”اُن خواتین کے لیے دوزخ میں ایک خاص جگہ بنائی جائے گی جو دیگر خواتین کی مدد نہیں کرتی ہیں“۔ یقیناً یہ ایک ایسا بیان ہے جس کا مقصد ہلیری کلنٹن کی سیاسی مہم میں ان مدد کرنا تھا لیکن اس کے بیان کے ذریعے میڈلین نے غیر ارادی طور پر خواتین ووٹروں کے حوالے سے ان کے مسائل بھی ظاہر کر دیے۔ میڈیلن البرائٹ کے مطابق آٹھ سال پہلے امریکا کی پہلی خاتون صدر منتخب کے لیے انتخابی دوڑ میں شامل ہو کر ہلیری کلنٹن نے ایک بے مثال قدم اٹھایا تھا لیکن خدانخواستہ 2016 میں بھی ان کی یہ کوشش ناکام نہ ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں نوجوان خواتین نے برنی سینڈرز کو زیادہ ووٹ دیے۔ شایدامریکی قوم نے انھیں کلنٹن -مونیکا لیونسکی سیکس سکینڈل میں اپنے شوہر بل کلنٹن کا ساتھ نہ چھوڑنے پر کبھی معاف ہی نہیں کیا۔ سروے رپورٹوں کے مطابق خواتین کی ایک بڑی تعدادیہ سوچتی ہے کہ اگر وہ خواتین کے حقوق کی جنگ کر رہی تھیں توانہیں اپنے شوہرسابق صدر بل کلنٹن (Bill Clinton)کوقصور وار ثابت ہونے پر چھوڑ دینا چاہیے تھانہ کہ مسلسل ان کا ساتھ دیتیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہلیری کو مسترد کرنے والی خواتین اگر بڑی عمر کی بڑی ہوتیں تو معاملہ سمجھ میں آجاتا لیکن اس سکینڈل کو لے کرکے انھیں ووٹ نہ دینے کا ارادہ رکھنے والی خواتین میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ مبصرین کے مطابق شاید یہ سب منظم منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ کلنٹن خاندان سے تعلق ہونے کی بنیاد پر ہی کچھ لوگ تو ہلیری سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مردوں اور خواتین کی ایک بڑی تعدا دیہ سمجھتی ہے کہ کلنٹن خاندان مغرور، دولت مند، ہر چیز پر اپنا حق جتانے والے اور اپنے آپ کو معاشرے میں سب سے اوپر تصور کرنے والے لوگ ہیں۔ ان سب تصورات کے باوجود ہلیری نے خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے واضح پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی حاصل کرنے کی مہم کے دوران دیگر تمام امیدواروں کی نسبت انہوں نے نہ صرف 53% خواتین کو اپنی ٹیم میں شامل کیا بلکہ انہیں انہیں مرد کارکنوں کے برابر اُجرت بھی دی گئی۔ ہلیری کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں مرد کارکنوں کو خواتین کے مقابلے میں ایک تہائی کم معاوضہ دیا،وہیں ان کی ٹیم میں خواتین کا تناسب محض28%ہے۔

امریکی میگزین فوربز کی سال2016 کی دنیا کی با اثر ترین خواتین کی فہرست میں جرمن چانسلر آنگلا مرکل کے بعد ہلیری کلنٹن کا دوسرا نمب رہے۔ بہرحال اپنے حریفوں کے مقابلے میں ہلیری کلنٹن نے وہ کر دکھایاہے جوآج تک ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ ہلیری کلنٹن کا ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنایقینا امریکا میں ایک بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ ہے اور8نومبرکو صدارتی معرکے میں ہلیری کی فتح کوامریکہ میں خواتین کی فتح سے تعبیر کیا جائے گا۔ بلاشبہ امریکا اور پاکستان کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی دونوں کاریکارڈ اچھا نہیں تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ہلیری کلنٹن زیادہ موزوں ہیں۔

ڈونلڈٹرمپ بمقابلہ ہلیری کلنٹن 1944 کے بعد پہلا صدارتی معرکہ ہے جس میں دونوں امیدوار نیو یارک شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس سے قبل 1944 میں نیو یارک کے گورنر تھامس ای ڈیواور فرنیکلن روزوولٹ ایک دوسرے مدمقابل تھے۔ حالیہ صدارتی انتخابات
جیتنے والا 71 سالوں میں وائٹ ہاوس میں پہلا نیو یارکر(New Yorker) ہو گا۔ واضح رہے کہ ہلیری کلنٹن
شکاگو میں پیدا ہوئیں لیکن وہ نیو یارک سے سینیٹر منتخب ہوئیں اور نیو یارک ہی میں رہتی ہیں
دنیا کی سپر پاور کہلانے والے ملک امریکا میں1920تک ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ تھی اور اب ملک کی240سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے 68سالہ ہلیری کلنٹن کی صورت میں ایک خاتون کو عہدہ صدارت کے لیے آگے لایا گیا ہے۔

حوالہ جات

  1. CLINTON, Hillary Rodham, (1947 -) — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جون 2016 — سے آرکائیو اصل فی 18 جون 2016
  2. Biographies of the Secretaries of State: Hillary Rodham Clinton (1947–) — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جون 2016 — سے آرکائیو اصل فی 18 جون 2016 — ناشر: Office of the Historian
  3. مصنف: Darryl Roger Lundy
  4. https://libris.kb.se/katalogisering/pm147s67051bg08 — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اگست 2018 — شائع شدہ از: 19 اکتوبر 2012
  5. http://fiddlingant.blogspot.com/2014/02/presidents-left-beats-right-hands-down.html
  6. CLINTON, Hillary Rodham, (1947 -) — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جون 2016 — سے آرکائیو اصل
  7. Biographies of the Secretaries of State: Hillary Rodham Clinton (1947–) — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جون 2016 — سے آرکائیو اصل — ناشر: Office of the Historian
  8. http://bioguide.congress.gov/scripts/biodisplay.pl?index=C001041
  9. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12543158f — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.