کرنل فریدی

کرنل فریدی اردو جاسوسی ادب کا ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کردار ہے، اس کردار کے خالق اردو ادب کے مشہور و معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ عظیم مصنف ابن صفی صاحب ہیں۔ تقسیم کے پانچ سال بعد، پاکستان ہجرت کرنے سے چند ماہ قبل ابن صفی نے انسپکٹر فریدی و سارجنٹ حمید کے لازوال کردار تخلیق کر کے انہی دونوں مرکزی کرداروں پر اپنا پہلا جاسوسی ناول ’’دلیر مجرم‘‘ مارچ 1952ء میں جاسوسی دنیا کے تحت شائع کیا جسے عوام میں بے حد مقبولیت ملی (ابن صفی نے ناول ’’دلیر مجرم‘‘ کی کہانی لکھنے کا سلسلہ جنوری 1952ء سے شروع کیا اور اس کی اشاعت مارچ 1952ء میں ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے ابن صفی کے تخلیق کردہ لازوال کردار انسپکٹر فریدی و سارجنٹ حمید برصغیر پاک و ہند میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے، بعد میں یہ کردار بین الاقوامی سطح پر بھی بہت مقبول ہوئے اور اب بھی یہ کردار پاکستان و ہندوستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر مشہور و معروف ہیں۔

فریدی کا اصل نام احمد کمال فریدی ہے جو کرنل احمد کمال فریدی‘‘ نام سے بھی مشہور ہے۔

جاسوسی دنیا کے ناول نمبر 41 ’’موت کی چٹان‘‘ میں انسپکٹر فریدی و سارجنٹ حمید کو ملک و قوم کے لیے بہترین خدمات سر انجام دینے پر اعزازی طور پر کرنل اور کیپٹن کے عہدے قبول کرنے پڑے، حالانکہ فریدی و حمید کے عہدے انسپکٹر و سارجنٹ ہی ہیں مگر یہ اعزازی عہدے انہیں حکومت کی طرف سے قبول کرنے پڑے۔ کرنل فریدی اگر چاہتا تو اس کا عہدہ آئی جی سے بھی کہیں زیادہ ہوتا مگر اس نے اپنی پروموشن پر کبھی توجہ نہیں دی اور پروموشن کو ہمیشہ رد کیا اور ملک و قوم کی خدمت کی خاطر ایک انسپکٹر کے عہدے پر رہتے ہوئے وہ اپنی خدمات بہتر طور پر سر انجام دیتا ہے۔

کرنل فریدی جو نواب عزیز الدین خان کا اکلوتا بیٹا ہے اور ایک بہت بڑی جائداد کا اکیلا وارث ہے، کرنل فریدی بہت مالدار ہے، دار الحکومت میں کرنل فریدی کی ایک بہت شاندار کوٹھی ہے۔ کرنل فریدی کے پاس صدر مملکت سے ایک خصوصی اجازت نامہ بھی حاصل ہے، بعض کیسز میں کرنل فریدی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ بلاواسطہ صدر مملکت کو جواب دہ ہے۔ کرنل فریدی کے صدر مملکت کے ساتھ خفیہ روابط ہیں۔

ناول 41 ’’موت کی چٹان‘‘ سے اگلے ہی ناول نمبر 42 ’’نیلی لکیر‘‘ میں فریدی کرنل اور حمید کیپٹن بن کر کام کرتے ہیں، اسی ناول میں ایک بین الاقوامی خطرناک ترین مجرم سنگ ہی پہلی بار کرنل فریدی کے مقابلے میں آتا ہے، اسی ناول ’’نیلی لکیر‘‘ سے یہ کردار ’’سنگ ہی‘‘ کافی مقبول ہوا، بعد میں یہی کردار ابن صفی ہی کے ایک اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کردار علی عمران کے مقابلے میں عمران سیریز کے کئی ناولوں میں آیا، علی عمران اور سنگ ہی کے ٹکراؤ والے ناولوں کو عوام کی بڑی تعداد پسند کرتی ہے۔

سنگ ہی جو مارشل آرٹ کا ماہر ہے اور گولیوں سے بچنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے جسے اس نے ’’سنگ آرٹ‘‘ نام دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ آرٹ پوری دنیا میں صرف اسے ہی معلوم ہے۔ ایک کیس میں علی عمران یہ سنگ آرٹ سنگ ہی سے اس طرح سیکھتا ہے کہ سنگ ہی کو پتا ہی نہیں چلتا، سنگ ہی عمران کو سنگ آرٹ کا استعمال کرتا دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے۔ کرنل فریدی کو اس ’’سنگ آرٹ‘‘ کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ کرنل فریدی اپنے ہی انداز سے گولیوں سے بچنے کا پہلے سے ماہر ہے، کرنل فریدی نے خود ہی پریکٹس/مشق کر کے گولیوں سے بچنے کی مہارت حاصل کی، کیپٹن حمید کو کرنل فریدی نے ایک بار کہا کہ مجھ پر فائر کرو، کیپٹن حمید پہلے تو نہیں مانا مگر کرنل فریدی کے اصرار پر کیپٹن حمید نے کرنل فریدی پر فائر کیا اور وہ حیرت انگیز پھرتی سے بچ گیا اسی طرح اس نے مزید فائر کیے اور کرنل فریدی ہمیشہ بچ جاتا۔

اگلے ناولوں میں فریدی و حمید کرنل و کیپٹن ہی کے عہدے سے کام کرتے ہوئے دکھائے گئے، سوائے جاسوسی دنیا 87 ’’زہریلا آدمی‘‘، 88 ’’پرنس وحشی‘‘، 89 ’’بیچارہ بیچاری‘‘ کے۔ ان ناولوں میں کرنل فریدی و کیپٹن حمید کو دوبارہ انسپکٹر اور سارجنٹ دکھایا گیا ہے اور ان سے اگلے ناول 90 ’’اشاروں کے شکار‘‘ اور میں تقسیم کے فوراً بعد کا ماحول نظر آتا ہے۔

کرنل فریدی کا ایک کوڈورڈ نام ہارڈ اسٹون ہے یہ نام کیپٹن حمید نے رکھا تھا۔ کرنل فریدی کی ایک خفیہ فورس یا تنظیم ہے جس کا نام ’’بلیک فورس‘‘ ہے، یہ فورس بین الاقوامی سطح پر سرگرم عمل ہے۔ بلیک فورس کے ممبرز اکثر کیسز میں کرنل فریدی کو اس کے کوڈورڈ نام ’’ہارڈ اسٹون‘‘ سے پکارتے ہیں۔

کرنل فریدی و کیپٹن حمید کے مقابل دنیا کے کئی بڑے بڑے انتہائی خطرناک پھرتیلے مجرم آئے جن میں فنچ، سنگ ہی، ڈاکٹر ڈریڈ، لیونارد، جابر، مسٹر کیو، گارساں، قلندر بیابانی، جیرالڈ شاستری، نانوتہ وغیرہ وغیرہ ہیں۔

ابن صفی کے ناولوں کو پڑھ کر کئی اسباق ملتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مجرم چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، جرائم جیسے بھی ہوں آخر کار فتح قانون کی ہی ہوتی ہے، برے کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.