نیاز امام جعفر صادق
کونڈے وہ برتن ہیں جن میں کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو رکھا جاتا ہے۔
شیعی موقف
زمانہ امام جعفر صادق 34 سال پہ محیط ہے (114ھ تا 148ھ) ان میں معجزات وکرامات اور ارشادات بھی ہیں جنہیں الجرائح و الخرائج نے اور تزکرة المعصومین نے تفصیل سے لکھا ہے امام علم لدنی کے مالک تھے اور پسندیدہ رب تھے ایک صحابی نے دعا کے لیے کہا آپ نے اپنے الله سے التجا کر کے مراد پوری کر دی صحابی نے عقیدت میں نیاز تیار کی کونڈے میں رکھ کر صبح کی نماز کے بعد نمازیوں کو کھلا دی (22 رجب تھی) لوگوں نے دیکھا دیکھی منتیں ماننا شروع کر دیں جن کی پوری ہوگئیں کونڈے بھرنے شروع ہو گے۔ اور یوں تیرہ سو سال سے یہ رسم چلی آ رہی ہے۔ عبدالرحمن جامی نے شواہد النبوة میں جعفر صادق کا وعدہ پورا کرنا اور کرامات دکھانا وضاحت سے لکھا ہے یہ نذر ونیاز اس لیے زیادہ مقبول ہوئی کہ جعفر صادق نے فرمایا منت کے صیغے پڑھ کر قصد کیا جاے۔ تو مراد پوری ہوتی ہے، رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ مومنین سے محبت بڑھتی ہے، صلہ رحمی کا موقع ملتا ہے۔ پاکیزگی سے کھانا پکانے کا درس ملتا ہے۔ اہل بیت سے محبت بڑھتی ہے۔
سنی موقف
جواز کے قائلین
- صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی اپنی مقبول کتاب بہار شریعت میں لکھتے ہیں:
” | ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز ہے، مگر اس میں اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے، یہ بے جا پابندی ہے۔[1] | “ |
- محدث اعظم پاکستان، مولانا محمد سردار احمد رضوی، 22 رجب کو کونڈے بھی شرعا جائز و باعث خیروبرکت ہیں[2]
- امیر اہلسنت و مفتی پاکستان ابو البرکات سید احمد قادری 22 رجب کے کونڈے بھرنا بھی اہل سنت کے معمولات میں سے ہے اور اس کے جواز کے وہی دلائل ہیں جو فاتحہ و ایصال ثواب کے ہیں[2]
- علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی اپنی کتاب جنتی زیور میں لکھتے ہیں: ماہ رجب میں حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کو ایصال ثواب کرنے کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں۔[2]
- مفتی محمد خلیل خان برکاتی، اپنی کتاب سنی بہشتی زیور میں لکھتے ہیں: ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کے لیے کھیر پوری (حلوا) پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ دلا کر لوگوں کو کھلائے جاتے ہیں، یہ بھی جائز ہے۔[3]
مخالفین
22 رجب کو امیر معاویہ بن ابو سفیان کی وفات ہوئی تھی، جس بنیاد پر عدم جواز کا فتوی دینے والے اسے رجب کے کونڈوں کے ساتھ جوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اہل تشیع امیر معاویہ کی وفات پر خوشیاں مناتے ہیں۔ جبکہ اہل تشیع کا جواب ہے کہ یہ واقع 60ھ میں ہوا (وفات معاویہ) اور کونڈوں کی ابتدا 120ھ میں ہوئی درمیان میں 60 سال کا فرق ہے دوسرا نذر امام جعفر صادق ایک منت ہے جو مراد پوری ہونے کے بعد دی جاتی ہے اسے موت اور خوشی کے ساتھ جوڑنا کم علمی ہے اور تاریخی مطالعہ کا فقدان ہے۔[4] کونڈے ایک رسم ہے جسے مہذب نام نیاز امام جعفر صادق کہا جا رہا ہے کونڈے نہ تو عربی زبان کا لفظ ہے اور نہ 115 سال پہلے اس کا کسی شیعہ سنی معتبر کتاب میں ذکر ہے یہ صرف گھروں میں بٹھا کر کھلائی جاتی ہے باہر لے جانا ممنوع ہوتا ہے۔ دیو بندی و غیر مقلدوں کا الزام ہے کہ یہ رسم 1906ء لکھنؤ اور رام پور میں شروع ہوئی۔ یہ دونوں شہر ہندوستان میں واقع ہیں، ثبوت میں لکڑہارے اور جعفرصادق کی من گھڑت کہانی بنائی گئی حالانکہ 22 رجب امام جعفرصادق کا نہ یوم وفات ہے اور نہ ہی یوم ولادت۔ ان کی ولادت 8 رمضان 80ھ ہے اور وفات 15 شوال 148ھ ہے۔ دراصل ایک خاص مکتب فکر 22 رجب کو کاتب وحی امیر معاویہ کی وفات کی خوشی میں یہ رسم ادا کرتاہے 22 رجب کو صبح سویرے حلوہ یا کھیر اور دیگر کھانے پکاکر چوری چھپے کھاتے اور کھلاتے ہیں۔[5]
حوالہ جات
- امجد علی اعظمی۔ بہار شریعت۔ کراچی: مکتبۃ المدینہ۔ صفحہ 74۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
- علامہ حسن علی میلسی۔ کونڈوں کی فضیلت بجواب کونڈوں کی حقیقت۔ کراچی: جمعیت اشاعت اہلسنت۔ صفحہ 6-7-8۔
- مفتی خلیل خان برکاتی، سنی بہشتی زیور (کتاب) حصہ دوم، صفحہ 176
- امامیہ جنتری 2012ء صفحہ نمبر 61
- http://www.alqalamonline.com/index.php/idarti/3568-495-rajab-k-koonde-ki-haqeeqat