مرشد احمد (تحصیل دار)

مرشد احمد مرحوم (ابن تراب علی مرحوم) کھگڑا (کشن گنج) کے نواب صاحب کے نامور تحصیلدار اور نہایت قریبی تھے. آزادی سے کچھ ہی پہلے کے برٹش انڈیا کے یہ نواب تھے. نواب صاحب کا نام غالباً فقیر الدین تھا. دادا کی تحصیل داری کے زمانے میں نواب صاحب ہمارے غریب خانے واقع سرکار پٹی، گنجریا (اسلام پور، ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال) میں آئے بھی تھے. ان کی ضیافت کے لیے گھر میں خاص اہتمام کیا گیا تھا، کچھ نوابی ظروف بھی خریدے گئے تھے، بچپن میں میں نے وہ ظروف دیکھے تھے جو دادی مرحومہ کی تحویل میں تھے. میں نے اپنے دادا اور دادی دونوں کو نہیں دیکھا، لیکن دادی چونکہ والد صاحب ہی کے زیر خدمت تھیں تو اس طرح وہ ظروف ہمارے گھر ہی میں تھے.

دادا مرحوم زمیندار وضع کے بڑے شریف النفس، ملنسار، مہمان نواز، خلیق و متواضع اور ایمان دار آدمی تھے. وہ غضب کے فارسی داں بھی تھے. ایک معمر عالم دین کے بیان کے مطابق ہمارے گاؤں کے مدرسہ جوہر العلوم میں زیرِ تعلیم جماعت فارسی کے طلبہ جب ان کے سامنے سے گزرتے تو وہ انہیں پاس بلاکر فارسی کے متعدد اشعار سناتے اور ان سے ترجمہ کرنے کہتے. اگر طالب علم ترجمہ سنا دیتے تو وہ بہت خوش ہوتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے. علما و صوفیہ سے بڑی محبت تھی اور ان کے خاصے قدر دان تھے. گاؤں (گنجریا) کے تقوی شعار صوفی مشرب عالم دین حضرت حافظ راشد علیہ الرحمة سے ان کے گہرے تعلقات و مراسم تھے. ہمارے والد (محترم محمد اقبال نوری) صاحب کے بقول دادا کی جان کنی کے وقت حضرت حافظ راشد صاحب کو بلوا کر ان سے سورہ یس کی تلاوت کرائی گئی تھی جسے سننے کے بعد دادا نے حضرت ہی کے سامنے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لی تھیں. إنا لله وإنا إليه راجعون البقاء لله الباقي اللهم اغفر له و ارزقه مكاناً عالياً في جنة الفردوس مع من أحبه بحرمة سيد المرسلين سيدنا وحبيبنا محمد صلى الله عليه وسلم و آله وصحبه أجمعين.

دادا کے ان اوصاف کی گواہی آج بھی ان کو دیکھے ہوئے یا ان سے ملنے والے معمر لوگ دیتے ہیں. الحمد للہ

دادا کی تحصیل داری:

دادا (مرشد احمد مرحوم) کی تحصیل داری میں موضع گنجریا، موضع دھنتولہ، موضع منجوک، موضع رتن پور، موضع موہنیا، موضع سرا دیگھی، موضع سیتا جھاڑی، موضع سیال توڑ، موضع دامل باڑی وغیرہ کے تمام گاؤں آتے تھے. اتنی بڑی تحصیل داری زیرِ ذمہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس دو عالیشان سواری گاڑیاں تھیں جن کے لیے دو جوڑے خوب صورت مسٹنڈے بیل تھے. ان سواری گاڑیوں میں متبادل طور پر ان کے گاڑی بان ان کو بٹھا کر گاہے بہ گاہے ان گاؤں کا دورہ کراتے تھے. ان گاؤں سے جو محصول وصول ہوتے تھے وہ نوابِ کھگڑا کو بھیج دیے جاتے تھے.

تحصیل داری کے ساتھ اپنی ذاتی زمین داری ہونے کی وجہ سے ان کے پاس نوکر چاکر کی ایک ٹیم تھی جو ان کی کھیتی باڑی کا پورا کام اپنی نگہداشت میں کرتی اور ساتھ ہی جوتنے کے بیلوں کو چراتی بھی تھی. گنجریا میں زمین داری کا یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مظفر پور، دربھنگہ اور چھپرہ وغیرہ سے لوگ آکر یہاں مزدوری کرتے تھے. آج بھی ان میں کچھ کی اولادیں یہیں آباد ہیں. اگرچہ پیشہ اب بدل چکا ہے.

دادا کے پاس ان کی تحصیل داری کو سنبھالنے کے لئے ایک خاص منشی بھی تھے جو تحصیل داری کے ساتھ ساتھ دادا کی زمین جائیداد کا بھی حساب کتاب رکھتے تھے.

تحصیل داری کی وجہ سے لوگ کثرت سے ان سے ملنے آتے تھے جس کے لیے انہوں نے ایک بڑا شاندار باہری گھر بنایا تھا اور وہ ہمیشہ اسی میں باہر ہی رہتے تھے. صرف کھانا کھانے کے لیے اندر (زنان خانے میں) جاتے تھے.

جب تک وہ باحیات رہے مستورات میں سے کسی کو بھی باہر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی.

وہ جہاں خوش خصال تھے وہیں بہت با رعب تھے. کسی کو ہمت نہیں تھی کہ اس بوڑھے شریف شخص کو آنکھ دکھا سکے یا ان کے سامنے کوئی خلافِ وقار بات کر سکے.

ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں

باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں

دادا کی ازدواجی زندگی اور فرزندان گرامی:

دادا مرحوم (مرشد احمد تحصیل دار) کی تین شادیاں ہوئی تھیں. پہلی شادی منجوک میں ہوئی تھی (تحقیق باقی ہے)، لیکن اس زوجہ سے کوئی اولاد نہیں تھی اور قبل از وقت فوت بھی ہوگئیں. دوسری شادی دادا نے آمباڑی میں کی تھی. آم باڑی داملباڑی ہاٹ سے جانب جنوب ایک گاؤں ہے جس میں مہذب لوگ بستے ہیں. اس دادی کا نام حفیظہ خاتون تھا. اس زوجہ کے بطن سے تین اولاد ہوئیں. ایک لڑکا اور دو لڑکیاں. لڑکے کا نام حکیم الدین تھا. بڑے صاحبزادے حکیم الدین کی تعلیم و تربیت میں دادا نے خوب توجہ دی. حکیم الدین نے اُس دور میں مدراس میں جا کر گریجویشن کیا تھا اور تعلیم سے فراغت کے بعد اسلام پور کوآپریٹو بینک کے منیجنگ عہدے پر فائز ہوئے اور اب حکیم الدین بینک منیجر بن گئے. تاحیات وہ منیجر رہے اور ریٹائرڈ ہونے کے چند سال بعد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے. دونوں لڑکیوں میں سے ایک کی شادی سہاگی (چھترگاچھ، کشن گنج) کے عبد الغفور صاحب سے ہوئی اور ایک کی منجوک کے الیاس صاحب سے. دادا کی یہ زوجہ بھی دادا کی حیات ہی میں وفات پا گئیں. اس کے بعد دادا نے تیسری شادی آمباڑی ہی میں حفیظہ خاتون مرحومہ کی چچا زاد بہن عائشہ خاتون سے کی جو میری حقیقی دادی ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ دادی عائشہ اور دادا کی جوڑی ایسی ہی تھی جیسے کہ سیاہ بادل کی اوٹ میں چاند. دادی سیاہ رنگ کی تھیں اور دادا بنگالی وضع کے نہایت خوبرو سفید رنگ کے آدمی. لیکن اُس دور میں چونکہ جمالِ صورت کے بجائے جمالِ سیرت کو ترجیح دی جاتی تھی. اس لیے یہ کوئی بات نہ تھی. دادی سیاہ رنگ کی ضرور تھیں، لیکن عادات و اطوار کی ملکہء حسن تھیں. اس زوجہ سے دادا کے یہاں چھ لڑکوں اور دو لڑکیوں نے جنم لیا. پہلے لڑکے کا نام عظیم الدین جو گنجریا پرائمری اسکول کے ٹیچر ہوئے اور بعد میں اسکول کے ہیڈ بن کر ریٹائرڈ ہوئے. دوسرے لڑکے کا نام نظیم الدین (مرحوم) عرف مستان صاحب. یہ دادا کی لاکھ کوشش کے باوجود تعلیم سے محروم رہے اور ناخواندہ تھے. لیکن شاید کچھ ابجد خوانی کی تھی. ناخواندگی کی وجہ سے دادا کی حیات ہی میں کھیتی باڑی میں منہمک ہوگئے اور دادا کی ایکڑوں پر پھیلی زمینوں کی دیکھ بھال کی. نہایت طاقت ور تھے، لیکن ایک مزمن مرض کی وجہ سے بعد میں کمزور ہوگئے تھے اور اسی وجہ سے شاید ان بھائیوں میں سب سے پہلے اس دنیا سے چل بسے. لا ولد ہونے کی وجہ سے مجھ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، بلکہ اپنے حقیقی بیٹے کے مانند مانتے تھے. بچپن میں میں اپنے انہی بڑے ابا کے ساتھ رہتا تھا، بلکہ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی میں ان کے گلے کو پکڑ کر انہی کے پاس سو جاتا تھا. جب تک مجھے نیند نہیں آتی تھی وہ اپنے ہاتھوں سے پنکھا جھیلتے رہتے تھے. مجھے عالم دین کے روپ میں دیکھنے کی ان کی بڑی خواہش تھی، لیکن میری فراغت سے پہلے ہی وہ موت کی آغوش میں چلے گئے. اللہ انہیں غریق مغفرت و رحمت کرے. تیسرے لڑکے کا نام شفیق عالم. ان کو شروع سے پڑھائی سے دلچسپی نہ تھی اور نہ ان پر کوشش کی گئی. ان کی دو شادیاں ہیں. پہلی بیوی وفات پا گئی ہیں اور دوسری شریکِ حیات ہیں. چوتھے ہمارے والد موسوم بہ محمد اقبال. ان کی تعلیم میٹرک تک ہے اور دو پارٹ ٹائم سرکاری ملازمت سے وابستـہ ہیں. ایک ملازمت محکمہ ڈاک میں بطور پوسٹ ماسٹر ہے اور دوسری گنجریا گرام پنچایت میں بطور ٹیکس کلکٹر (یعنی قدیم تحصیل دار)، لیکن پنچایت والی اس ملازمت سے انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے (یعنی میرے تیسرے چھوٹے بھائی) کے حق میں گزشتہ سال استعفی دے دیا ہے اور یہ نوکری اس تیسرے صاحب کو پنچایت والوں کے اتفاق رائے سے مل بھی گئی ہے. والد صاحب تو یوں میٹرک ہولڈر ہیں، لیکن دماغی توانائی میں کسی ایم اے ہولڈر سے کم نہیں. صرف آٹھ سال کی عمر ہی سے انہوں نے گھر کی گارجنی سنبھالی، کیوں کہ ان کی چھ یا سات سال کی عمر ہی میں دادا کافی کمزور ہوگئے تھے اور افراتفری کی وجہ سے گھر کی مالی حالت بھی خراب ہوگئی تھی. پانچویں نمبر پر گل محمد. انہیں حساب کتاب اور تھوڑی بہت بنگلہ زبان آتی ہے. یعنی معمولی ابتدائی تعلیم سے بہرہ ور ہیں. سب سے چھوٹے لڑکے کا نام صغیر الدین. ان کو سب بھائیوں نے مل کر پڑھایا اور عالم دین بنایا. یہ جامعہ اشرفیہ سے فارغ مصباحی ہیں اور پڑتاپ پور، گوپال گنج، بہار کے ایک سرکاری ادارہ دارالعلوم قادریہ میں صدر المدرسين ہیں.

دادا کی اِس زوجہ کی دو لڑکیوں میں سے ایک کی شادی کوئی ماری کے شمس الحق صاحب سے اور دوسری کی شادی ہلدا گاؤں کے مجیب الرحمن صاحب سے ہوئی. یہ دونوں اور پہلی دونوں لڑکیاں (یعنی میری پھو پیاں) اس دار فانی سے عالمِ بقا کے سفر پر روانہ ہوچکی ہیں. اللہ کریم ان سبھوں کی مغفرت فرمائے.

(سلسلہ جاری ہے اور کہانی ابھی باقی ہے.)

خاکہ نگار:

✍️محمد شہباز عالم مصباحی

🏡عائشہ منزل، سرکار پٹی، گنجریا، اسلام پور

ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.