سردار لطیف کھوسہ
پنجاب (پاکستان) کے موجودہ گورنر۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد جنوری 2011 میں پنجاب کے گورنر مقرر ہوئے۔
سردار لطیف کھوسہ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
![]() تفصیل= گورنر لطیف کھوسہ پی پی پی | |||||||
گورنر پنجاب 27 ویں | |||||||
مدت منصب 13 جنوری 2011 – تا حال | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 25 جولائی 1946 (73 سال) ڈیرہ غازی خان | ||||||
رہائش | گورنر ہاؤس لاہور (سرکاری) | ||||||
شہریت | ![]() ![]() | ||||||
نسل | پنجابی | ||||||
مذہب | اسلام | ||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، وکیل | ||||||
وزیر اعلیٰ پنجاب | شہباز شریف | ||||||
ابتدائی زندگی
سردار لطیف احمد خان کھوسہ پچیس جولائی انیس سو چھالیس کو جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے اور طالب علمی کے دوران ہی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے صدر بنے۔ انہوں نے وکالت کے ساتھ ساتھ وکلا سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔
وکالت
سردار لطیف کھوسہ تین مرتبہ ہائی کورٹ بار ملتان بنچ کے صدر منتخب ہوئے اور ملک میں وکلا: کی سب بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بارکونسل کے تین مرتبہ رکن چنے گئے۔ سنہ دو ہزار میں لطیف خان کھوسہ نے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کے پروفیشنل گروپ سے علیحدگی کرتے ہوئے الگ گروپ تشکیل دیا جسے بار کی سیاست میں کھوسہ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ بار کا انتخاب بھی لڑا لیکن وہ وکیل رہنما حامد خان سے شکست کھاگئے۔
پیپلز پارٹی
سردار لطیف کھوسہ پیپلز پارٹی کی وکلا تنظیم پیپلز لائیرز فورم پاکستان کے صدر بھی رہے۔ سردار لطیف کھوسہ نے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات میں ان کی پیروی کی اور دو ہزار دو کے عام انتخابات کے بعد وہ پیپلز پارٹی کیطرف سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بینظیر بھٹو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی جلاوطنی کے بعد جب لاہور میں آئیں تو انہوں نے سردار لطیف کھوسہ کے گھر میں قیام کیا اور اس جگہ انہیں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ یہ بینظیر بھٹو کا لاہور کا آخری دورہ تھا اور یہ نظر بندی بھی ان کی زندگی کی آخری نظربندی تھی۔
وکلا تحریک
معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے شروع ہونے والی وکلا کی تحریک میں لطیف کھوسہ پیش پیش تھے تاہم اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس تحریک سے علاحدہ ہو گئے جس پر اُنہیں وکلا کی طرف سے نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بعض ڈسٹرکٹ بار میں اُن کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اٹارنی جنرل
سردار لطیف کھوسہ کوانیس اگست دو ہزار آٹھ کو جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم کی جگہ اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا تھا لیکن ایک سال کے بعد ہی انہیں اس وقت اٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب مغفور شاہ نامی شخص نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں ان پر ایک مقدمے میں مدعی کو بری کروانے کے لیے ججوں کے نام پر اُن سے تیس لاکھ روپے لینے کا الزام لگایا گیا تھا۔
مشیر
اٹارنی جنرل کے عہدے سے ہٹنے کے بعد انہیں دس فروری دو ہزار دس کو وزیر اعظم نے اپنا مشیر بنا لیا لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیْ دے دیا تھا جسے منظور نہیں کیا گیا۔ بطور مشیر لطیف کھوسہ نے اپنی ہی وزارت کے بارے میں وائٹ پیر بھی شائع کیا ۔ گزشتہ برس لطیف کھوسہ نے وزیر اعظم کے مشیر کے عہدے سے استعفیْ دے کر این آر او کیس میں بطور وکیل اپنا وکالت نامہ جمع کرایا اور اس مقدمہ میں حکومت کی طرف سے پیروی کی۔
گورنر
سابق گورنر سلمان تاثیر کی توہین رسالت قانون کے حوالے سے بیانات نے ملکی سیاست اور مذہبی حلقوں میں ہلچل کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ جس کا نتیجہ ممتاز قادری کے ہاتھوں سلمان تاثیر کی قتل کی صورت میں سامنے آیا۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد صدر نے لطیف کھوسہ کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا۔
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
ماقبل ملک محمد قیوم |
پاکستانی اٹارنی جنرل 2008ء – 2009ء |
مابعد انور منصور خان |
ماقبل سلمان تاثیر |
گورنر پنجاب 2011ء |
مابعد مخدوم احمد محمود |