ختنہ

ختنہ مرد کے عضو تناسل کی سامنے کا کھال کاٹ دینا۔[1][2] قدیم زمانے سے ختنہ کی رسم مذہبی رسومات کا جزو رہی ہے۔ عہد قدیم کے مصر میں اس کا رواج تھا۔[3] پھر نبی ابراہیم نے اسے یہودیوں میں رائج کیا اور آج تک رائج ہے۔ مسیحیت میں اس کی ممانعت نہیں ہے بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے، چنانچہ قبطی اور حبشی مسیحیوں میں یہ اب بھی رائج ہے۔[4][5][6] دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں اس کا رواج رہا ہے۔[4]

ختنہ

یہودیوں[7] اور قِبطی و حبشی مسیحیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی ختنہ کروانا لازمی ہے۔ موجودہ دور میں لوگ حفظان صحت کے لیے ختنہ کرواتے ہیں۔ عورتوں کی ختنہ کا رواج افریقا اور جنوبی امریکا کے بعض قبائل اور مشرق قریب میں ہے۔

یہ سنت ابراہیمی اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس میں بچے کے عضو تناسل کا زائد چمڑا کاٹا جاتا ہے۔ اسلام میں ختنہ کی عمر سات سال سے بارہ سال کی عمر تک ہے۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا جائز ہے۔ اگر ایسا بوڑھا شخص مشرف باسلام ہو جس میں ختنہ کرانے کی طاقت نہیں تو اس کی حاجت نہیں ہے۔ بالغ شخص اگر اسلام قبول کرے تو اگر وہ خود اپنا ختنہ کرسکتا ہو تو فبہا ورنہ دوسرے سے کرانا صحیح نہیں ہے۔ اولاد کا ختنہ کرانا باپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ نہیں ہو تو اس کا وصی پھر اس کے بعد دادا اور اس کے وصی کا درجہ ہے۔ باقی دوسرے اقربا کا یہ کام نہیں سوائے اس کے کہ بچہ ان کی تربیت و عیال میں ہو۔

امام بخاری نے مسلمانوں کی خصوصیات اور علامات بیان کرتے ہوئے جہاں اور باتوں کا ذکر کیا ہے وہاں ختنہ کو بھی خصوصی علامت قرار دیا ہے۔ امام شافعی ختنہ کو واجب سمجھتے ہیں اور مردوں کے علاوہ عورتوں کے ختنہ کے بھی قائل ہیں۔ مگر دیگر ائمہ فقہ اس کو سنت نبوی اور سنت ابراہیمی کہتے ہیں۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ ختنہ کب ہونا چاہیے۔ لیکن بچپن میں ہو جائے تو بہتر ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. C Rudolph، A Rudolph، G Lister، L First، A Gershon (18 مارچ 2011)۔ Rudolph's Pediatrics, 22nd Edition۔ McGraw-Hill Companies, Incorporated۔ صفحہ 188۔ آئی ایس بی این 978-0-07-149723-7۔ مورخہ 18 جنوری 2016 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
  2. Sawyer S (نومبر 2011)۔ Pediatric Physical Examination & Health Assessment۔ Jones & Bartlett Publishers۔ صفحات 555–556۔ آئی ایس بی این 978-1-4496-7600-1۔ مورخہ 2016-01-18 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
  3. Doyle D (October 2005). "Ritual male circumcision: a brief history". The Journal of the Royal College of Physicians of Edinburgh 35 (3): 279–285. PMID 16402509.
  4. "Male circumcision: Global trends and determinants of prevalence, safety and acceptability" (پی‌ڈی‌ایف)۔ World Health Organization۔ مورخہ 2015-12-22 کو اصل (پی‌ڈی‌ایف) سے آرکائیو شدہ۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
  5. "Circumcision"۔ Columbia Encyclopedia۔ Columbia University Press۔ مورخہ 2015-09-24 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
  6. Clark M (10 مارچ 2011)۔ Islam For Dummies۔ John Wiley & Sons۔ صفحہ 170۔ آئی ایس بی این 978-1-118-05396-6۔ مورخہ 18 جنوری 2016 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
  7. Glass JM (January 1999). "Religious circumcision: a Jewish view". BJUI 83 Suppl 1: 17–21. doi:10.1046/j.1464-410x.1999.0830s1017.x. PMID 10349410.
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.