بحیرہ طبریہ

بحیرہ طبريہ یا بحیرہ گلیل (Sea of Galilee) جسے جھیل گنیسرت (Lake of Gennesaret) اور جھیل طبريہ (عبرانی: יָם כִּנֶּרֶת، یہودی ئبرانی: דטבריא יַמּא، عربی: بحيرة طبرية) بھی کہا جاتا ہے اسرائیل میں سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ اس کا محیط تقریباً 53 کلومیٹر (33 میل)، اس کی لمبائی 21 کلومیٹر (13 میل) اور چوڑائی 13 کلومیٹر (8.1 میل) ہے۔ جھیل کا کل رقبہ 166 مربع کلومیٹر (64 مربع میل) ہے , اور زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریباً 43 میٹر (141 فٹ) ہے۔[3] اسرائیل اور اردن کے درمیان واقع جھیل بحیرہ مردار کہلاتی ہے جس کا پانی سمندری پانی سے بھی 6 گنا زیادہ نمکین ہے۔
بحیرہ طبریہ کو بیشتر پانی دریائے اردن سے حاصل ہوتا ہے جو شمال سے جنوب کی طرف بہنے والا دریا ہے۔

بحیرہ طبريہ کا سیر بین نظارہ
بحیرہ طبريہ
Sea of Galilee
Kinneret
جغرافیائی متناسق 32°50′N 35°35′E
قسم مونومکٹک
بنیادی اضافہ بالائی دریائے اردن اور مقامی جریان[1]
بنیادی کمی زیریں دریائے اردن, تبخیر
Catchment area 2,730 کلومیٹر2 (1,050 مربع میل)[2]
نکاسی طاس ممالک اسرائیل, شام, لبنان
زیادہ سے زیادہ. لمبائی 21 کلومیٹر (13 میل)
زیادہ سے زیادہ. چوڑائی 13 کلومیٹر (8.1 میل)
رقبہ سطح 166 کلومیٹر2 (64 مربع میل)
اوسط گہرائی 25.6 میٹر (84 فٹ)
زیادہ سے زیادہ. گہرائی 43 میٹر (141 فٹ)
پانی کا حجم 4 کلومیٹر3 (0.96 cu mi)
Residence time 5 سال
ساحل کی لمبائی1 53 کلومیٹر (33 میل)
سطح بلندی -212.07 میٹر (695.8 فٹ)
جزائر 2
حوالہ جات [1][2]
1 Shore length is not a well-defined measure.

بحیرہ طبریہ کی خشکی

مقامِ نووارد جزیرہ بحیرہ طبریہ
بحیرہ طبریہ میں نو وارد جزیرہ میں مقامِ نووارد جزیرہ بحیرہ طبریہ کا مقام
مقام اسرائیل اردن سرحد
متناسقہ 32°42′44.46″N 35°35′58.9992″E
بحیرہ طبریہ کے پانی کی 2004ء سے 2012ء کی سطح کا تصویری جائزہ

مصدقہ ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سرائیل کی طبریہ جھیل میں پانی کی سطح بتدریج کم ہونے کی وجہ سے اس میں ایک جزیرہ نمودار ہو گیا جو روسی سیارچہ کے زمینی تصاویر کی ویبسائٹ , ینڈکس اور میپ قویسٹ پر میسر ہے تاہم عرصہ گزر جانے کے بعد بھی متوقع طور پہ گوگل پر نظر نہیں آ رہا-[4][5] اسرائیلی حکومت اس کی سالانہ سطحی اتار چڑھاؤ کی تفصیلات اس جگہ شائع کرتی ہے

مذہب اور تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ روز محشر یا قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اس جھیل کا خشک ہونا بھی ہے۔بحیرہ طبریہ جہاں سے اسرائیل اپنے لیے پانی حاصل کرتا ہے خشک ہونے والا ہے اور خوفناک گڑھوں کی وجہ سے اب لوط ؑ کی قوم کو عبرتناک عذاب سے دوچار کیے جانے کے نتیجے میں وجود میں آنے والا سمندر ’بحیرئہ مردار‘ یا ڈیڈ سی بہت تیزی سے خشک ہو رہا ہے اس کی سطح آب میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہو رہی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ بحیرئہ مردار 2050ء سے بہت پہلے اپنا وجود کھو بیٹھے گاان گڑھوں کی تعداد 1990ء میں صرف 40 تھی، تاہم اب صرف مقبوضہ فلسطین کی جانب والے ساحل پر 3 سو گڑھے بن چکے ہیں، جس سے اسرائیل کو سخت پریشانی لاحق ہے، اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اس کے سمندر خشک نہ ہوں۔ اس لیے نہر سویز سے ایک رابطہ نہر بحیرئہ مردار تک کھودی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ بحیرئہ احمر، بحیرہ مردار سے 400 میٹر اونچا ہے، رابطہ نہر کے علاوہ بحیرئہ احمر یا بحیرہ قلزم کو بحیرہ مردار کے ساتھ پائپ لائن کے ذریعے جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو RSDSC منصوبہ کہتے ہیں، اس منصوبہ پر اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بحیرئہ مردار ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے تیزی سے خشک ہو رہا ہے۔

تصاویر

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.