سب علی
سبّ علی کی روایت حکومت امویہ کے زیر نگین علاقوں کی مساجد میں تقریباً 65 سال (657ء تا 720ء) تک جاری رہی۔
روایت سب علی
یہ روایت معاویہ بن ابو سفیان کے حکم پر جاری ہوئی۔[1][2] اس حکم کے تحت علی بن ابی طالب [3] اور ان کے خاندان کو اموی حکومت کی تمام مساجد میں جمعہ کے خطبہ کے دوران میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو گورنر بنایا تو سعد کو حکم دیا اور کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکا ہے کہ تم ابو تراب یعنی علی ابن ابی طالب پر سب نہ کرو۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے علی کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں جس کے بعد میں کبھی علی پر سب (لعنت) نہیں کہہ سکتا۔[4] سیستان میں اس حکم پر عمل نہیں ہوا کیونکہ صحابی سعد بن ابی وقاص نے مندرجہ ذیل تین وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے حکم ماننے سے عذر کا اظہار کر دیا تھا:[5]
- قرآن کے مطابق علی اہل بیت میں سے ہیں جن کو اللہ نے تمام برے عناصر سے پاک کر دیا ہے۔
- پیغمبر اسلام کے مطابق علی کا تعلق ان سے ایسا ہی ہے جیسے ہارون کا تعلق موسیٰ سے تھا۔
- پیغمبر اسلام نے جنگ خيبر کا پرچم علی بن ابو طالب ہی کو عطا کیا تھا اور اللہ نے ان کو فتح سے نوازا۔
سعد بن ابی وقاص نے معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا کہ اگر تم میری گردن پر آرہ بھی رکھ دو کہ میں علی ابن ابی طالب پر سب کروں تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔[6]
جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے تب انہوں نے سب علی کی روایت کو ختم کیا۔[3] تاہم ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ سب علی کی یہ روایت خلافت امویہ کے سقوط پر ہی ختم ہو سکی۔[7]
محمد بن قاسم اور سب علی
تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر عسقلانی[8]، طبقات الکبریٰ میں ابن سعد[9] اور تاریخ طبری میں ابن جریر طبری [10]، لکھتے ہیں کہ:-
"حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن سعد عوفی کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے انکو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں"۔
سب معاویہ کی مخالفت
معاویہ بن ابی سفیان سے منبروں پر علی بن ابی طالب کو سب کرنے کے حکم سے قبل علی المرتضیٰ نے اپنے اصحاب کو جنگ صفین میں معاویہ کو سب کرنے اور بر بھلا کہنے سے منع فرمایا اور اس عمل کی تردید کی۔[11] علی بن ابی طالب کی فوج میں سے حجر بن عدی اور عمرو بن حمق نے مُعاویہ اور اہل شام پر لعنت کی تو علی نے اُنہیں ایسا کرنے سے روکا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہم حق پر نہیں؟ جواب دیا کہ ہم حق پر ہیں لیکن میں تمہارے لعن و تشنیع کرنے کو پسند نہیں کرتا ہوں۔[11]
نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ علی نے جنگ صفین کے موقع پر اپنے ساتھیوں میں سے چند آدمیوں کو سنا کہ وہ شامیوں پر سب وشتم کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا:
” | میں تمہارے لیے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو۔ اگر تم ان کے کرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو، تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کی بجائے یہ کہو کہ خدا یا ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی اور ہمارے اور ان کے درمیان میں اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لا تاکہ حق سے بے خبر، حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔[12] | “ |
حوالہ جات
- De Lacy O'Leary۔ Arabic Thought and Its Place in History۔ Courier Corporation۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-06۔
- ابو الاعلی مودودی، خلافت و ملوکیت، صفحہ 147
- Tarek Fatah۔ Chasing a Mirage۔ J. Wiley & Sons Canada۔ صفحہ 171۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-06۔
- صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب
- Reza Shah-Kazemi۔ Justice and Remembrance: Introducing the Spirituality of Imam Ali۔ I.B.Tauris۔ صفحات 62, 63۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-08۔
- فتح الباری شرح صحیح البخاری، جلد 8، صفحہ 424
- Ṭabarī، Khalid Yahya Blankinship (translator)۔ The Challenge to the Empires۔ SUNY Press۔ صفحات xix۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-07-08۔
- حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم، صفحہ 226، شمارہ راوی 413
- ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج6، ص:305
- طبری، تاریخ الطبری، ج11، ص:641
- ابو حنیفہ الدینوری، الاخبار الطوال، صفحہ 165، شمارہ 1368
- نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 206، ترجمہ مفتی جعفر حسین۔